سید عدیل اعجاز
ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ لاہور عجائب گھر کے ہال میں داخل ہوا تو وہاں عجب خاموشی تھی۔ ایک خوشگوار سکوت تھا اور وہاں موجود سامعین کے چہروں سے سنجیدگی ٹپک رہی تھی۔ تقریب کی میزبانی راقم کے سپرد تھی۔
درحقیقت یہ تقریب، کتاب کی رونمائی کی سلسلے میں منعقد کی گئی تھی جو کہ پروفیسر ڈاکٹر طاہر کامران صاحب کی حال میں بین الاقوامی اور قومی سطح پر شائع ہونے والے کتاب Chequered Past, Uncertain Future: The History of Pakistanکے سلسلے میں 29 ستمبر کو سجائی گئی تھی۔
بلاشبہ یہ ایک پر شکوہ، پر علم اور اس کتاب کی رونمائی کی سب سے پہلی تقریب تھی جس کا آغاز میزبان(راقم) نے ان الفاظ میں کیا۔”سویرا ہونے والا تھا اور ستارے تیزی سے جھلملا رہے تھے۔ ان کے جھرمٹ میں کتاب اپنی روشنی بکھیر رہی تھی۔ میں نے کتاب کا ورق پلٹا تو صفحے کو چھونے کا لمس ایک مخصوص بو، خوشبودار احساس اجاگر کرتے ہوئے یہ سوال چھوڑ گیا کہ کتاب کیا ہے؟ یہ سوال کس قدر تیکھا تھا۔ میں حافظے کی بھول بھلیوں میں ابھی اس کا جواب ٹٹول ہی رہا تھا کہ کانوں میں آواز کا سنہری قطرہ ٹپکا اور اس سے پیدا ہونے والے گونج کہنے لگی کہ کتاب تو ایک بیتے ہوئے لمحے کا نام ہے۔ یہ وقت کا جلترنگ ہے۔ ایک سریلا ساز ہے۔ گہری رات میں مہکتا ہوا روشن چاند ہے۔ یہ خوابوں کا قافلہ اور گزرے وقت کی گزارش ہے۔ بھید وں کی راگنی اور گردشِ رنگِ چمن کو دیکھنے کا درپن ہے۔ کتاب، قدرت کا انمول رتن ہے۔“
اس تعارف کے بعد میزبان نے کتاب کی مقصدیت، معنویت اور اس میں جنوبی ایشیاء کے اتہاس کے بیان کردہ پہلوؤں پہ مختصر سی بات کرتے ہوئے کتاب کے تخلیق کارپروفیسر ڈاکٹر طاہر کامران صاحب کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی۔
کتاب پہ گفتگو کے لئے اس وقت اپنی اپنی اقلیم کے جید امام ہمارے ساتھ موجود تھے۔ان میں صحافی سہیل واڑئچ، پروفیسر ڈاکٹر ناصر عباس نیر، پروفیسر ڈاکٹر محبوب احمد اور ڈاکٹر عرفان وحید عثمانی موجود تھے۔
ناصر عباس نیر اردو ادب میں ایک واضح مقام رکھتے ہیں اور آج کل لمز میں اردو ادبیات کی تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈاکٹرمحبوب احمد پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کے سربراہ ہیں جبکہ عرفان وحید عثمانی صاحب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں تاریخ کے استاد ہیں۔
”چیکرڈ پاسٹ، اَن سرٹن فیوچر“ کیا کہتی ہے؟ حالیہ دور میں اس کی کیا اہمیت ہے اور اس کا پڑھا جانا کیوں ضروری ہے؟
عثمانی صاحب نے اس سوال پہ مکمل شرح و بسط سے گفتگو کی اور کتاب میں تاریخ کے سیاسی پہلوؤں پہ بات کی۔ انھوں نے کہا کہ یہ کتاب لانگ ڈیورے ہے جو پاکستانی تاریخ کو بادی النظر تاریخ کے ادوار کو دیکھ رہی ہے اور یہی اس کتاب کی خوبصورتی ہے کیونکہ آج کے دور میں ایسی کتب لکھناجان جوکھوں کا کام ہے۔
انھوں نے کتاب میں عمران خان پہ موجود باب پہ اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ عرفان وحید عثمانی نے بہت سی ان کہی باتوں کو ببانگِ دہل کہا،بالخصوص اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے، جو کہ اہل علم کی جراتِ اظہار پر ایک دال ہے۔ اس سے وہاں موجود سامعین کو یہ حرارت ملی کہ ہمارے درمیان اب بھی ایسے اہل علم موجود ہیں جو سچ کہنا بہ خوبی جانتے ہیں۔
اس کے بعد پروفیسر ڈاکٹر محبوب احمد کو شریک گفتگو کیا گیا اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ اس کتاب کے ساتھ ان کی رفاقت کی داستان کیا ہے اور پاکستانی میں تاریخ کے میدان میں اضافے کا سبب کیوں کر بن رہی ہے؟
ڈاکٹر محبوب کی گفتگو بھی سیاست کی اقلیم کا احاطہ کئے رہے۔ انھوں نے بیان کیا کہ پارلیمانی تاریخ کے لیے لحاظ سے یہ کیس نہایت ٹھوس ہے اور اس کی مدد سے پاکستان کو تاریخ کے گہرے تناظر میں نہ صرف دیکھا جا سکتا ہے بلکہ اس کی فہم و ادارک بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ناصر عباس نیر نے گفتگو کو تمدن اور ادبیات کے پیرائے تک محدود رکھا۔ انھوں نے اردو ادب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے خوب گل کترے اور سامعین کو مسحور کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مورخین ادب کو تاریخ میں مآخذ کے طور بہت کم تصور کرتے رہے ہیں لیکن یہ اس کتاب کی رعنائی ہے کہ اس نے ادب کو ماخذ کا درجہ دیا ہے جس سے تاریخ کا ایک نیا مگر تکثیری بیانیہ ابھرا ہے اور اس سے کتاب کی توقیر بڑھ جاتی ہے۔
انہوں نے مزیدکہا کہ امیر خسرو کی شخصیت اردو ادب اور تاریخ دونوں میں اہم ہے بلکہ مسلم ثقافت کا منبع ہے۔
”طاہر کامران سے قبل مورخین نے امیر خسرو کی شخصیت کو اس نگاہ سے نہیں دیکھا تھا۔ جس سے اس کتاب کی معنویت زیادہ بڑھ جاتی ہے“۔ انھوں نے کتاب پہ بات کرتے ہوئے غالب کو بھی اسی سلسلے کی ایک سنہری کڑی قرار دیا۔
سہیل وڑائچ،جو پاکستان کی تاریخ کے متعدد ادوار کے عینی شاہد رہ چکے ہیں،نے کتاب اور صاحبِ کتاب کے ساتھ اپنے قلبی اور ذہنی سفر کی روداد بیان کی اور کتاب میں سیاسی تاریخ کے پہلوؤں پہ روشنی بکھیری۔ان کا کہناتھاکہ طاہر کامران نے کتاب میں جو تجاویز تحریر کی ہیں اگر پاکستانی ریاست ان پہ عمل کرے یا انھیں حرزِ جاں بنا لے تو یہ سیاسی گرداب سے نکل سکتی ہے اور ترقی کی ڈگر پر چل سکتی ہے۔
تقریب کے آخر میں طاہر کامران نے کتاب کے منصہ شہود پر آنے اور اس دوران حاصل ہونے والی ترغیبات کو بیان کیا اور اس سفر میں شریک احباب کا شکریہ ادا کیا۔تقریب کے اختتام پہ میزبان نے کتاب کی تخلیق کے گہرے جذبے کو بیان کرنے کے لئے میر تقی میر کے اشعار پڑھے جو طاہر کامران کی کوشش کا بھی اعتراف تھے:
میں کون ہوں اے ہم نفساں! سوختہ جاں ہوں
اک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں
جلوہ ہے مجھی سے لبِ دریائے سخن پر
صد رنگ مری موج ہے، میں طبعِ رواں ہوں
اشعار کے بعد، صاحبِ کتاب کو سٹینڈنگ اویشن دیا گیا۔