پاکستان

پرسشِ غم کون کرے؟

سید عدیل اعجاز

پاکستان اس وقت بے یقینی کے سمندر میں غرقاب ہو چکا ہے۔ ہر طرف عجیب طرح کی مایوسی اور انتشار کی سرانڈ پھیل رہی ہے۔ معاشرے میں طبقاتی تقسیم بڑھ رہی ہے اور لوگ تلملائے بیٹھے ہیں۔ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ پاکستان سول وار کے دہانے پر کھڑا ہے۔یہ اچانک، کبھی بھی پھوٹ سکتی ہے اور پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے، لیکن ہمارے اہل ِ سیاست اور اربابِ اختیار کی پراستحسان نظریں اس جانب نہیں جا رہی ہیں۔ ملکی سیاست کی نظریں 26ویں آئینی ترمیم پر مرکوز ہو کر رہ گئی ہیں۔ حکومتی جماعتیں لیلائے آئینی ترمیم کے عشق میں قیس سامری کا کردار ادا کرنے پہ مامورہیں،جب کہ حزبِ اختلاف اس پہ نکتہ چیں ہے۔ یہ نکتہ چینی آئینی ترمیم کو روکنے، اس کے سدباب کی بجائے محض اسے التواء میں ڈالنے کی خاطر کی جا رہی ہے۔ اس سارے طرفہ تماشے میں عوام تماشائی ہیں۔

پاکستان کی تاریخ میں، بلکہ تقسیمِ ہند سے اب تک، سیاست کی غلام گردشوں میں عوام کچلے ہوئے خاموش تماشائی ہی تو رہے ہیں۔ پاکستان کی ابتداء سے اب تک ترمیم اور قوانین یہ کہہ کر لائے جاتے ہیں، لائے جاتے رہے ہیں کہ یہ عوام کے لیے ہیں مگر کیا کوئی قانون اب تک عوام کے لیے ان کی منشا سے لا یاگیا بھی ہے؟ ملک میں آئینی ترمیم کے لیے یہ ڈھکوسلا دیا جا رہا ہے کہ یہ جمہوریت کی راہ کو ہموار کرے گا، ملک میں اس کا برگ و بار لائے گا۔ موجودہ دور میں سیاست دانوں کی ابلہ فریبیاں دیکھ کر مجھے ون یونٹ اور اس سے قبل کی سیاسی فضا یاد آ رہی ہے۔ آج تاریخ میں جب بھی ون یونٹ کی بات آتی ہے تو اس کا سارا الزام جنرل ایوب خان کے سر تھونپ دیا جاتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ون یونٹ کی ترکیب انہی کے ذہن کا شاخسانہ تھی۔ یہ پھلجڑی انہی کے ذہن سے پھوٹی تھی۔ اس کا اعتراف انھوں نے اپنی خودنوشت میں بھی کیا ہے۔ ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ ون یونٹ سے قبل ملک کا سیاسی منظر نامہ انتہائی گدلا تھا۔ سیاست دان چوہے بلی کا کھیل، کھیل رہے تھے۔ ایک دوسرے کے بال و پر کو نوچ رہے تھے۔ پنجاب سے مرکز کو کمزور کرنے کے لیے ممتاز خان دولتانہ صاحب جیسے بدطینت شخص سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کر رہے تھے جن اسباب کی بناء پر ون یونٹ ایسی بلا نازل ہوئی۔ بادی النظر میں ان عوامل کو کسی حد تک درست قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن یہ بات بھی تو ریکارڈ پر موجود ہے کہ ون یونٹ کو سب سے زیادہ جوان ان اربابِ سیاست ہی نے کیا تھا۔ سندھ اسمبلی، پنجاب اسمبلی حتیٰ کہ بنگالی سیاستدانوں نے بھی اسے جمہوریت پرور قدآدم قرار دیا اور عوام کی فلاح کی طرف ایک ٹھوس اقدام تصور کیا۔ سب ہی نے اس کی نفیریاں اور شہنائیاں بجائی تھیں، لیکن بعد کو، ایوب خان کے زوال کے بعد، یہی سیاست دان اس کے خلاف ہو گئے اور خود کو نیلسن منڈیلا کہنے لگے۔آج 70 سالوں بعد بھی حالت جوں کے توں ہی ہے۔ تب یہ عدالتی مسئلہ تھا۔ آج اسی سے ملتا جلتا ایک اور عدالتی مسئلہ ہے۔ تب ون یونٹ کے لیے طرح طرح کی تاویلات گھڑی گئی تھیں، آج آئینی ترمیم کے لیے گھڑی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ بلاول بھٹو زرداری، جو شوشے چھوڑنے میں خود کا ثانی نہیں رکھتے، یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ آئینی عدالتوں کے قیام کی ہمنوائی تو محمد علی جناح نے کی تھی۔

بلاول کی اس گفتگو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کا پاکستانی تاریخ کا مطالعہ کس حد تک سطحی ہے۔ کہنے کو یہ ہمارے سیاستدان ہیں۔ جنہیں پاکستان کی تاریخ سے رتی برابر بھی آشنائی نہیں۔ جب ملکی زبان ہی نہ آتی ہو، عوام میں بیٹھنے کی خوبو ہی نہ ہو، تو ایسی بے پرکیاں اڑانا کوئی انہونی بات نہیں۔ بلاول کو محمد علی جناح سے آئینی عدالتوں کے قیام سے قبل سائمن کمیشن اور گول میز کانفرنسوں کا احوال پڑھ لینا چاہیے تا کہ ان کے انھیں معلوم ہو سکے کہ محمد علی جناح نے کس سلسلے میں، اور کس تناظر میں ان عدالتوں کی بات کی تھی۔ تب تک تو پاکستان کا خیال بھی سیاستدانوں کے ذہن میں موجود نہ تھا۔ باید ہی کوئی سوچ سکتا ہو کہ پاکستان کا قیام وجود میں آئے گا۔ اس دور میں پنجاب میں یونین اسٹ پارٹی کا راج تھا۔ کانگریس ہر منظر پر چھائی ہوئی تھی اور مسلم لیگ جوان تک نہ ہو پائی تھی۔ یہ وہ وقت تھا، جب ہندوستان کو آئین دینا تھا تا کہ اس کا نظم و نسق آئین کے ذریعے چلایا جا سکے۔ کیا اب پاکستان اس صورتِ حال سے دوچار ہے؟ کیا ملک میں آئین موجود نہیں ہے؟ یہاں یہ سوال بھی ذہن میں آتا ہے کہ کیا یہ ملک محض سیاستدانوں کے تماشوں کی آماجگاہ ہے؟ کیا یہ اسی لیے بنوایا گیا تھا؟ پاکستان میں عدالتیں اس لیے بنائی گئی ہیں کہ یہ سیاستدانوں کے بے تکے مسائل حل کریں اور ان کے اقتدار کو دوام بخشیں؟ یہ تماشا کب ختم ہو گا؟ اس صورت میں ملک خانہ جنگی کی جانب نہیں بڑھے گا تو کس طرف جائے گا۔

پاکستان میں عدالتی نظام انتہائی سرانڈ زدہ ہے۔ اسے سرطان ہے۔ یہ سطور لکھتے وقت میرا دل اس بچی کے واقعے کو یاد کر کے زخمی ہے جو آج سے تین ہفتے قبل قلعہ دیدار سنگھ میں پیش آیا تھا۔ جہاں ایک 15سالہ لڑکی کو، جو اپنے دوست کے ساتھ جنسی تعلقات کی بناء پر گود سے تھی، کو اس کے دوست نے پانچ لڑکوں کے ہمراہ ریپ کر کے ختم کر دیا۔ پہلے اس بچی کو پیٹ میں نطفے کوتلف کرنے کے لیے گولیاں دی گئی، وہ اس دوران درد سے کراہتی رہی،اس کامداوا کرنے کی بجائے، ان بے درد لڑکوں نے معصوم لڑکی کو بے ہوش کیا اور اپنی ہوس کو پورا۔ جس دوران وہ لڑکی درد میں لپٹی، زخمی حالت میں مٹی اوڑھ کر سو گئی، لیکن یہ مسئلہ میڈیا میں کہیں اجاگر نہیں کیا گیا۔ اس دوران کسی عدالت کو جلال نہیں آیا۔ معاملہ فراموش کر دیا گیا۔ آصفہ بھٹو کو تو ہلکی سی چوٹ لگنے پر پورا ملک لرز گیا تھا۔ اس بچی کی چیخوں پہ پاکستان میں پتا تک نہ لرز پایا۔ ذاکر نائیک پنڈال سجائے کامیڈی کرتے رہے اور سیاست دان آئینی ترمیم کا راگ الاپتے رہے۔ وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ آئینی ترمیم اس وقت ملک کے عوام سے بڑی چیز ہے۔ عوام کا اس ملک سے کوئی تعلق نہیں ہے،لیکن وہ وقت دور نہیں جب تاج گرا دیے جائیں گے اور عوام اپنے حاکم خود بنیں گے۔ انسانی تجربات کی طویل تاریخ اس بات کی تصدیق کرتی ہے۔

Syed Adeel Ejaz
+ posts

سید عدیل اعجاز گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے شعبہ تاریخ میں بحیثیت لیکچرر فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی کے لبرل آرٹس ڈیپارٹمنٹ میں وزٹنگ لیکچرر کے طور پر وابستہ ہیں۔