ایلین جونز
ترجمہ : رانا مبشر
فلم ”پیراسائٹ“ کی شہرت کے حق میں بیان دینا محض ایک سیاسی بیان نہیں ہے بلکہ اس فلم میں واقعی ان تلخ حقائق کی عکاسی کرنے کی کو شش کی گئی ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کی صورت میں آپ پر قابض ہیں۔ تمام مکتبہ فکر کے لوگوں کو اسے دیکھنا چاہئے۔
یہ فلم دیکھنے کے کچھ دن بعد بھی، میں کافی غمزدہ سا ہوں۔ یہ ایک بہت اچھی فلم ہے۔ یہاں تک کہ یہ مزاحیہ بھی ہے اور پھر سخت اذیت بھی دکھائی جاتی ہے۔
اس فلم کے خلاف آنیوالے ردعمل پر کوئی توجہ نہ دیں۔ یقینا اس کا آپ کو سوشل میڈیا پر سامنا ہوسکتا ہے۔ کوئی بھی فلم جو اس سطح کے بلند اثرات مرتب کرتی ہے، یقینا اس میں ایسا ہوتاہے کہ ابتدائی اور قبل ازوقت رائے دینے والوں کی وجہ سے دیر سے دیکھنے والوں نے اسے مسترد کردیاہو۔ ” پیراسائٹ “ بائیں بازو کے دلدادہ افراد کا بہترین انتخاب تھی اور اس کے نتیجے میں بائیں بازو پرتنقید کے لئے بھی زبردست موقع تھی کیوں کہ اب لوگ اسے محض ایک سیاسی کہانی کے طور پر دیکھنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔
فلم شروع ہوتے ہی وہ اسی پس منظر میں فلم کا تجزیہ اکٹھا کرنا شروع کردیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ مصنف و ہدایتکار بونگ جون، میزبان سنو پائرس اوراوکجاسے بھی جلد یہ کام کرسکتے ہیں۔ کیونکہ تنقید کرنا دنیا کا آسان ترین کام ہے۔
اگرپیراسائیٹ کو صرف سوشلسٹ اخلاقیات، یا پیغام، یا کہانی پر مبنی ایک فلم سمجھا جاتا ہے تو یہ ناکام ہوجائے گی کیونکہ یہ بہت آسان اور سیدھی معلوم ہوگی۔ میں پہلے ہی سوشلسٹ ردعمل کے بیانات آن لائن پڑھ رہا ہوں اور لامحالہ شکایت یہ ہے کہ فلم کا پیغام بہت واضح اور پڑھنے میں آسان ہے، اور یہ کہ فلم کے ہر منظر میں گھر بکھر جاتا ہے۔ میں اپنے فیس بک فیڈ بیک سے صرف ایک فلم دیکھنے والے کے بیان کا حوالہ دوں گا:
”اس فلم کا خلاصہ بنیادی طور پر یہ ہے کہ طبقاتی شعور کے بغیر طبقاتی جدوجہدنہیں کی جا سکتی اور طبقاتی شعور ایسے سماج میں آہی نہیںسکتا جب محنت کش طبقے کا مقصد صرف حکمران طبقے کی جگہ لینے سے زیادہ اور کچھ نہ ہو۔“
فلم پیراسائیٹ دراصل ایک ”گھرانے کو بنانے“ اور ترقی کرنے کے امکانات پر ایک کم متوسط طبقے کی زندگی پر مشکلات کی گرفت کے تجربے پر روشنی ڈالتی ہے اور اس انداز سے اس کی تصویر پیش کرتی ہے کہ آپ کو کسی کی تکلیف کا واقعی احساس ہو سکے۔ ڈائریکٹر چاہتا ہے کہ آپ کو ایسا لگے کہ چھری کے واربارباراداکار کو نہیں بلکہ آپ کو لگ رہے ہیں، چھری آپ کے وجود میں اتر کر گہرے زخم کررہی ہے، آپ اس درد کو محسوس کریں اور یہ درد آپ کو مدتوں یادرہے۔ جیسا کہ ای الیکس جنگ نے ایک انٹرویو میں بونگ کا حوالہ دیا، فلم کے اختتام کا جذباتی مقصد، خاص طور پر آخری شاٹ بہت جان لیوا ہے:’’یہ ایک یقینی موت ہے۔‘‘
اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں صرف چند لوگ ہی ایسے مخصوص مقام پر پہنچ سکتے ہیں جہاں ان کو پیسے کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہوتی۔ وہ عیش و عشرت میں رہتے ہیں، ہموار، کھلی فضا، بے حد وسیع و عریض فن اور فن تعمیر میں داخلی طور پر تعمیر شدہ صاف ستھری عمارتوں میں رہتے ہیں۔ لہذا جب کوئی اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اس کے کسی بھی کام میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں رہتی کیونکہ اس کے پاس پیسہ وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے اور آج کل پیسے سے ہر مشکل کام بھی ہوسکتاہے۔ فلم میں، ایک مشہور جدید گھر دکھایا جاتا ہے، جو ایک مشہور معمار نے ڈیزائن کیا ہے۔ جی ہاں ان ماہرتعمیرات میں سے ایک جس کا 1960ء کی دہائی کے اوائل میں طوطی بولتاتھا۔ وہ بڑے پیمانے پر، مہنگے سے صاف ستھرے رہائشی کمروں کے نقشے تیارکرتاتھا۔ وہ نقشے میں شیشے کی ایک بڑی دیوار کے ساتھ ہی وسیع لان کو شروع کردیتاتھا۔ جو اس طرح مزید خوبصورت منظر دکھائی دیتا تھا۔ فلم میں کچھ اس طرح سے مناظر دکھائے گئے ہیں کہ اندرونی و بیرونی منظر، پرندوں کی قدرتی آوازیں اور چمکیلی دھوپ صاف نظرآتی ہے۔
فلم میں متوسط سے بھی نچلے طبقے کی مشکلات کو بھی فلمایا گیا ہے، ان کی تکالیف اور مسائل کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ کس طرح ایک مشکل زندگی گزارتے ہیں۔ بچپن میں، غریب گھرانوں کے بچے اسکول کے امیر دوستوں کے گھروں کا دورہ کرنے پر کتنی ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ وہ اتنا عالی شان گھر دیکھنے کے دوران بے پناہ جگہوں پر حیرت زدہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے گھروں کو اتنا صاف ستھرا اور جنت نما کیسے بنا لیتے ہیں۔ حتیٰ کہ انہیں ان گھروں کے اندر قدم رکھنے کے بارے میں گھبراہٹ ہوتی ہے کیوں کہ اگر میرے پاﺅں کے ساتھ لگی مٹی ان کے عالیشان کمروں میں لگ گئی تویہ خراب ہوجائے گا۔ اگر کنبہ کے کسی فرد یا کسی دوسرے امیر دوست نے دیکھ لیا تو میں جانتا ہوں کہ میرے ساتھ کیا ہوگا۔
فلم میں دکھایا گیا ہے کہ صفائی ستھرائی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ کچی آبادیوں کی تنگ گلیوں کے تنگ گھروں میں ایک سفید پوش خاندان کو اپنے بھرم کو قائم ودائم رکھنے کیلئے بہت جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ ایسا خاندان ہمیشہ کے لئے نا مساعد حالات کے رحم و کرم پرہوتا ہے۔ ان غریب خاندانوں میں نشے کے عادی افراد بھی ہوتے ہیں۔ وہ کسی تہہ خانہ میں رہتے ہیں، اسی کمرے میں کھانا کھاتے ہیں اور اسی کمرے کے ایک کونے پر پیشاب کرتے ہیں۔ وہ افسردہ حالات کی وجہ سے پراگندہ خیالات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ کیڑے مار ادویات خرید سکیں۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ پڑوس میں کیڑے مارنے کے لئے کھڑکیاں کھلی ہوئی ہیں تو وہ اپنی کھڑکی بھی کھول دیتے ہیں تاکہ ان کیڑے مار ادویات کی خوشبوآنے سے ہونے والی بیماریوں سے چھٹکارا حاصل ہوسکے۔ فلم کے اختتام پر، جب خاندان کا اپنا حال بہتر بنانے کا منصوبہ ناکام ہو گیا ہے تو، گندگی سیلاب کے سلسلے میں نیچے کی طرف بہتی ہے جو گٹروں سے پھوٹتی ہے اور ان کا معمولی گھر اور املاک کو تباہ کردیتی ہے۔
یہ سب تب شروع ہوتا ہے جب کیو وو ( ایک یونیورسٹی کا طالب علم ( جو اپنی تعلیم کے لئے معمولی رقم بچا تارہتا ہے، کو ایک دولت مند خاندان کی بیٹی، ڈا ہائے کی بیٹی کو تعلیم دینے والی نوکری مل جا تی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ملازمت حاصل کرنے کیلئے خود کو اچھی طرح تیار کرنا کتنا ضروری ہے۔ وہ گھر کی بیوقوف، لاپرواہ خاتون، یونو کیو جو ییو جیونگ کی چاپلوسی اور خوشامد کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرکے بڑی ہوشیاری سے اپنے آپ کو گھر میں پسندیدہ بناتا ہے۔
جلد ہی وہ اپنے پورے کنبے کے لئے بھی نوکریوں کا انتظام کرتا ہے۔ فلم میں دلچسپ مناظر دکھائے جا تے ہیں۔ ڈیڈپن بہن کی جنگ پارک سو ڈیم گوگل پر فوری تلاش کر رہی ہے اور پارک ہاﺅس کے بریٹی مالدار بیٹے، دا گان کی جیسکا، گرو جیسی آرٹ تھراپسٹ کے طور پر کھڑی ہے۔ جون بیٹھا، لاپرواہ باپ کی تائک سونگ کانگ ہوآرام دہ اور پرسکون طور پر اطمینان بخش باتیں کرتا ہے اور والدہ چنگ سوک جنگ ہی جن نوکرانی مون گوانگ لی جیانگ کے شاندار جوتے پہنے کھڑی ہے۔
اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کسی ادارے میں طبقاتی جدوجہد کیلئے کارکنوں کی یکجہتی نہیں ہے، ظاہر ہے کہ یہ کام کرنے والے غریبوں کی ایک آپس کی جدوجہد ہے جو دولت مند خاندانوں کے مال میں سے اپنا حصہ لینے کے لئے لڑ رہی ہے۔ یہ خاندان جبلت اور تلخ تجربات کی بنا پر جانتا ہے کہ دولت مندوں کے سامنے خود کو کس طرح قابل قبول بنائیں۔ کیسا لباس پہننا ہے، بال کس طرح بنانے ہیں، بات چیت کیسے کرنی ہے اور چال کیسی رکھنی ہے۔ وہ سب کام خاموشی، آسانی اور نفیس طریقے سے کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود بھی انھیںخطرہ ہے کہ کہیں ان کی اصلیت نہ کھل جائے۔ ان کیلئے پریشان کن مسئلہ ان کے جسم سے آنیوالی ایک ناگوار بدبو ہے۔ جس سے انہیں چھٹکارہ نہیں مل پارہا۔
بریٹی دا گانا ایک ضروری اعلان کرنا چاہتا ہے لیکن اعلان کرنے سے پہلے ان چاروں اجنبیوں کے پاس سے گزرتا ہے، ”اسے ان سب سے ایک ہی بو آتی ہے“!
یہ غریب خاندان اس پراسرار شناخت پر الجھے ہوئے اور پریشان ہیں، وہ کہتے ہیں”آخر اس کا حل کیا ہوسکتا ہے؟“ وہ جلدی سے مختلف اقسام کے صابن سے نہانا دھونا شروع کردیتے ہیں۔ لیکن اس سے مسئلہ حل نہیں ہوتا ہے۔ اس طرح انہیں نوکر کی حیثیت سے اپنی ملازمت سے محروم ہونے کا بھی خطرہ ہے۔
یہ فلم کا ناقابل برداشت حد تک تکلیف دہ موڑ ہے، جب ایک غریب خاندان نے بظاہر امیر لوگوں کے ماحول میں گھس جانے کا ہدف معجزاتی طورپر حاصل کرلیا ہے۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ جھوٹی شہرت ہمیشہ کیلئے قائم نہیں رہ سکتی۔ اب سوال صرف یہ ہے کہ اب کہانی کس طرف کو جائے گی اور کس طرح آگے بڑھے گی ؟
”انٹرویو کا ٹیسٹ پاس کرنا: ایک مشکل“۔ جی ہاں، دنیا کے کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنے کی کو شش کرنیوالے جانتے ہیں کہ ایک غریب گھرانے کے نوجوان کی کیا مشکلات ہوتی ہیں۔ محنت کش طبقے کے فرد کی ایک نہیں بے شمار مشکلات ہو تی ہیں۔ انہیں یہ احساس گھیرے رکھتا ہے کہ ان کا دنیا میں کچھ حصہ تو ضرور ہے لیکن سرمایہ دار طبقہ انہیں ان کے حاصل سے ان کو ہمیشہ دور کرتارہے گا۔ اس سے قطع نظر کہ وہ کتنے ہی خوبصورتی سے لباس پہنتے ہوں یا کتنے ہی اچھے فن پارے تخلیق کرتے ہوںیہ بیچارے غریب لو گ مراعات یافتہ اور طاقت ور افراد کے آداب اور رویوں کی تقلید کرتے ہیں۔ یہ ان کا شوق نہیں مجبوری ہے۔ ان کے ذہنوں میں یہ خوف اچھی طرح مضبوط ہے کیوں کہ یہ خوف طویل عرصے سے اعلیٰ طبقے کے عقائد میں سرایت کر رہا ہے کہ محنت کش نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق نچلاطبقہ فطری طور پر اور جسمانی طور پرسرمایہ دارطبقے سے کافی حد تک کمتر ہے۔ یہی بات طبقاتی استحکام کا ایک جواز ہے۔
جارج آرویل نے اس کے بارے میں ”دی روڈ ٹو ویگن پیئر“ میں لکھا تھا۔ انہیں شمالی انگلینڈ میں غریب کان کنوں کے رہنے والے حالات پر تحقیقاتی رپورٹ بنانے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ انہوں نے اپنے پروجیکٹ کو مکمل کرنے پر اس بات کا عوامی سطح پر اعتراف کیا کہ وہ غریبوں کے بارے میں اعلیٰ طبقاتی رویوں کے بارے میںبہت کچھ جانتا ہے۔ یہ عقیدہ کہ نچلے طبقے والے لوگ بنیادی طور پر ناپاک ہیں۔ یہ ایک اہم معاملہ ہے۔ یہاں تک کہ انتہائی جنونی انگریز وں نے ایک محض "اعلی متوسط طبقے” کے فرد کے طور پر کلاس اور درجہ بندی کر رکھی تھی۔ آرویل کے مطابق، اس طبقاتی حیثیت کا مطلب تھا کہ سرمایہ دار گروہ اپنے ملازمین کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں جو وہ شاید خود بھی کبھی برداشت نہیں کرسکتے تھے۔
فلم کا دوسرا تباہ کن پہلو، میرے نزدیک، باپ کی خوش قسمتی ہے۔ فلم میں ایک خاص مرحلے پر آکر جب اس کا کنبہ ایسی خوش قسمتی کی باتیں سننے کا منتظر رہتا ہے کہ ان کو ان کے پریشان کن حالات سے دور کرنے کا کیا منصوبہ ہو سکتاہے، تو وہ بیٹے کیو سے کہتا ہے کہ ”زندگی کی بہترین منصوبہ بندی دراصل کسی منصوبہ بندی کا نہ کرنا ہے یعنی آپ اپنے تمام معاملات صرف قسمت اور تقدیر پر چھوڑ دیں۔“ اس نظریے کے مطابق عمل کریں گے تو آپ دیکھیں گے جب چیزیں لامحالہ کام ہی نہیں کریں گی پھر بھی اس سے آپ کوزندگی میں زیادہ خرابی اورالجھن محسوس نہیں ہوگی۔
یہ خیال کہ جب آپ کے پاس وسائل بہت کم ہیں تو کوئی منصوبہ بھی کامیاب نہیں ہوپاتا۔ اصل مسئلہ ہی یہی ہے کہ آپ اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس پر ناصرف غور کریں بلکہ عملی جدوجہد کریں۔ زندگی میں جو چیز آپ کو جاری رکھے ہوئے ہے وہ صرف اور صرف عزم ہے کہ آپ کو ہمیشہ کچھ نیا آزماتے رہنا چاہیے، کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ چاہے آپ کتنی بار ناکام ہوجائیں، کسی حد تک دوبارہ اٹھنے کی کوشش ضرورکریں۔ چاہے وہ کوشش کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو۔ بونگ جون ہو نے اسی پرعزم خیالی تصور کاعملی اظہار دکھاتے ہوئے فلم کا اختتام کیا، جسے ہم ایک خوبصورت خیال کے طور پر پہچانتے ہیں، جیسا کہ کیو نے اپنے کنبے کے بچے کو بچانے، یونیورسٹی جانے، بڑی رقم کمانے، اور کسی نہ کسی طرح آگے بڑھنے کا وعدہ کیا ہے۔ تب وہ امیر ترین آدمی بن کر پارک کا فیملی ہاﺅس خریدے گا جہاں وہ چمکیلی دھوپ کا نظارہ کیا کرے گا۔
یہ فلم سوشلزم کا ایک بہت بڑا تحفہ ہے جس میں آپ دیکھتے ہیں کہ ایک شخص آخر کار کس طرح اپنی چھوٹی چھوٹی پریشانیوں سے گھرے ہوئے خاندان کے باوجود اپنے خلاف قائم سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کے خواب میں زندہ ہے۔ وہ اس نظام کو تبدیل کرنے کیلئے پاگل ہواجارہا ہے۔ وہ شخص اگر مجبورانہ طور پر پیچھے مڑ کر دیکھتا تھاتو سوچتا تھا کہ ہم یہ تبدیلی اس سے بھی زیا دہ جلدی لا سکتے تھے۔ ہمارے پاس سب کچھ تھا۔ ذہین بھی تھے، جارحانہ بھی تھے۔ ہم نے غور کیا، ٹھیک کیا لیکن شاید ہم اتنے ہنر مند تھے۔ صرف ہم ہی کیوں؟ کیوں ہم دوسروں سے پیچھے رہ گئے، ہم کیسے ناکام ہوگئے؟
بونگ جون ہو اس معاملے کو بخوبی جانتا ہے اسی لیے وہ اپنے جدوجہد کرنے والے کنبے کو سمارٹ، سخت اور جارحانہ بناکرپیش کر تا ہے تاکہ ایسا سوچنے کی گنجائش نہ رہے کہ انھوں نے حالات کو تبدیل کرنے کیلئے محنت اور بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ کچھ فلم دیکھنے والے عادتاً ہی اس طرح کی سوچ کے جال پر غور کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور اگر آپ کسی ایسی جدوجہد کے کسی بھی دور سے گزر چکے ہیں تو میرا نہیں خیال کہ آپ کس طرح پیراسائیٹ کو دیکھتے ہوئے اپنے پرانے زخموں سے بچ گئے ہوں اور آپ کو اپنا مشکل وقت یاد نہ آیا ہو۔ جیسا کہ ای الیکس جنگ نے فلم کا مرکزی نقطہ یہ اخذکیا ہے کہ” ہماری زندگی میں صرف امید ہی ہے جس کے سہارے ہم آگے بڑھتے ہیں “۔
فلم میں جذباتی مناظر بہت زیا دہ ہیں لیکن جو چیز ہمیں ہر قدم اٹھانے پر مجبورکرتی ہے وہ صرف ہمارا عزم اور ہمت ہے لیکن اتنی انتھک جدوجہد اور محنت ہماری ہڈیوں کاگوداکھاجاتی ہے۔
فلم کا نام ایک ایسی چیزپررکھاگیا ہے جو صرف علامتی انداز میں سرمایہ دارانہ نظام کی ترجمانی کرتی ہے۔ اگرچہ اس پر تنقید بھی کی گئی ہے کیونکہ یہ بہت زیادہ استعاراتی اور متاثرکن ہے۔