فاروق طارق
بابا بلھے شاہ نے کہا تھا:
ملاں تے مشالچی دوہاں اکو چت
لوکاں کردے چانن آپ ہنیرے نت
(مولوی اور مشعل بردار ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔ دوسروں کو روشنی دکھا رہے ہوتے ہیں، خود اندھیرے میں رہتے ہیں)۔
کرونا وبا پھوٹنے کے بعد ملاؤں نے بار بار یہ ثابت کیا کہ وہ اندھیرے میں ہیں۔ ایران میں مولویوں کی جانب سے ابتدائی طور پر کرونا کو سنجیدہ نہ لینے کی وجہ سے ایران میں عوام اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ ایرانی حکومتی ملاؤں نے کرونا کی وبا کی خبر دینے والوں کو دبایا۔ بڑے اجتماعات جاری رکھے، مذ ہبی جگہوں پر اجتماعی عبادتوں کو جاری رکھااور ایرانی ائر لائن نے چین جانے والی پروازیں جاری رکھیں۔ مولانا طارق جمیل کی طرح رو رو کر دعائیں مانگیں۔
پاکستان میں بھی ملاؤں نے اب تک بار بار اس وبا کا مذاق اڑایا۔ بڑے اجتماعات جاری رکھے، حکومت کی باتیں بھی نہ مانیں اور حکومت ایران سے آنے والے زائرین کی موثر قرنطینہ نہ کر سکی۔ نتیجہ آج پاکستان میں آٹھ سوسے زائد افراد کرونا کا شکار ہو چکے ہیں اور تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔
کرونا وائرس نے ہر قسم کی توہم پرستی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ جب سعودی حکمرانوں نے خانہ کعبہ بند کر دیا اور اس مقدس جگہ کو آب ِزم زم سے غسل دینے کی بجائے سائنسی انداز میں اس کی صفائی کرائی تو عجوہ کھجور کی مدد سے ہارٹ اٹیک کا علاج کرنے والوں اور آب ِ زم زم سے کینسر کا خاتمہ کرنے والے مبلغین کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔
مولانا طارق جمیل نے اے آر وائی چینل پر جو دعا کرائی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو کرونا کی فکر نہیں بلکہ عمران خان اور ملک ریاض کی سلامتی کی فکر ہے۔ ملا تاریخ میں ہمیشہ سائنس اور سائنسی ایجادات کی ہر ابتدا کی مخالفت کرتے رہے۔ جب سر پر پڑی تو بادلِ ناخواستہ ایسی ایجادات کو تسلیم اور پھر اس کو استعمال کرتے رہے۔
ہم مکمل مذہبی آزادی کے قائل ہیں۔ ہر انسان کو اپنے عقیدے پر عمل کا حق ہے۔ ہم البتہ مذہبی بنیاد پرستی اور مذہبی جنونیت کے خلاف ہیں۔ یہ ہر شخص کی اپنی مرضی ہے کہ وہ کس طرح عبادت کرنا چاہتا ہے اور اسے ایسا کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہئے۔ ہم مذہبی جنونیت اور مذہب میں فرق کرتے ہیں۔ ہمیں طارق جمیلوں کی ضرورت نہیں جو خود کروڑوں کی گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور حکمرانوں کے لئے دعا کرتے ہیں۔ ہمیں اپنی عبادت کرنے کی آزادی ہونی چاہئے۔