فاروق طارق
گذشتہ روز روزنامہ جنگ لاہور ایڈیشن میں امیر تبلیغی جماعت مولانا نذر الرحمٰن کا بیان شائع ہوا۔ مولانا کا کہنا ہے کہ ”محنت میں کمی پر اللہ ہم سے ناراض ہو گیا، موجودہ حالات اعمال کا نتیجہ ہیں۔ “ مسئلہ یہ ہے جب بھی کوئی وبا پھیلتی ہے یا بیماری سر اٹھاتی ہے، ہمیں اس کی سائنسی وجوہات تلاش کرنے کی بجائے اسے ہمارا ہی قصور ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ جب بھی سائنسی تحقیق کے نتیجے میں کوئی نئی دریافت سامنے آتی ہے تو مولوی حضرات دل کھول کر اس کی ابتدا میں مخالفت کرتے ہیں۔ جب دریافت کا فائدہ نظر آنے لگتا ہے تو اسے اپنا لیتے ہیں۔
ابھی چند دن پہلے تک کافی سارے مولوی حضرات مساجد میں نماز نہ ادا کرنے کی حکومتی تلقین کی کھل کر مخالفت کر رہے تھے۔ حکومتی تلقین کو مذہب کے منافی قدم قرار دیا جا رہا تھا مگر جب کرونا کے بارے میں واضح ہوا کہ یہ اجتماعات کے نتیجے میں پھیلا ہے تو احتیاط شروع ہے۔ ہماری مولانا حضرات سے درخواست ہے کہ ہر بات کو مذہبی رنگ نہ دیا کریں۔ کرونا وائرس نہ تو مسلمان ہے نہ ہی کافر، یہ ایک وبا ہے جس کا علاج ڈھونڈنے کے لئے دنیا بھر میں کوششیں جاری ہیں۔
بجلی نہ تو مسلمان ہوتی ہے نہ ہندو یا مسیحی، اگر آپ ننگے تار کو چھیڑیں گے پھر کرنٹ تولگے گا۔ اسی طرح اگر آپ وائرس لے کر گھومنے والے فرد کا، جسے خود بھی معلوم نہیں کہ اسے کرونا ہے، جھوٹا پانی پئیں گے، اس کے قریب ہوں گے، اس سے ہاتھ ملائیں گے، اس کی چھینک کی زد میں ہوں گے اور اس کے قریب سوئیں گے تو کرونا آپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
کرونا کی وبا نہ تو ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے اور نہ ہی کم محنت کانتیجہ۔ یہ بیماری ہے جس کے پھیلنے کی سائنسی وجوہات ہیں۔ لوگوں کو غلط تشریحات نہ پیش کریں۔ انہیں ہر وقت احساس گناہ میں مبتلا نہ رکھیں۔ اس وقت اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ہدایات پر عمل کریں تو کرونا سے بچنے میں مدد ملے گی۔