فاروق سلہریا
چند دن پہلے، عید کے روز پاکستان میں ٹریڈ یونین تحریک کا ایک اہم باب بند ہو گیا: کامریڈ یوسف بلوچ بیاسی سال کی عمر میں ہم سے جدا ہو گئے۔ وہ مزدور فیڈریشنوں کے اتحاد اور پاکستان ورکرز کنفیڈریشن کے چیئرمین تھے۔ وہ نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے چیئرمین بھی رہے جبکہ پروگریسو لیبر فیڈریشن کے بانی رہنما تھے۔
پکے ’ریلوائی‘تھے یعنی نہ صرف عمر بھر ریلوے میں کام کیا بلکہ ریلوے مزدور وں کی ٹریڈ یونین تحریک کا ایک اہم حوالہ تھے۔
یوسف بلوچ کا شمار ان ٹریڈ یونین رہنماؤں میں ہوتا تھا جو عمر بھر ٹریڈ یونین کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں اور بائیں بازو کی سیاست سے بھی عملی طور پر وابستہ رہے۔ اس ’جرم‘ کی پاداش میں صرف ضیا آمریت کے دوران چار بار جیل کاٹی۔
معاشی حالات کی وجہ سے اچھی تعلیمی قابلیت کے باوجود کالج کی تعلیم برقرار نہ رکھ سکے اور ریلوے میں بھرتی ہو گئے۔ ایوب آمریت کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک میں ریلوے مزدور ہراول دستے کا کردار ادا کر رہے تھے۔ حساس دل اور دانشوارانہ ذہن رکھنے والے یوسف بلوچ نے بھی اپنے ہم عصر نوجوانوں کی طرح انقلابی سیاست میں قدم رکھا۔ اگلے پچاس سال وہ اس سیاست کیساتھ مختلف حیثیتوں میں وابستہ رہے۔ پچاس سالہ اس طویل سفر میں کبھی بھی سوشلسٹ انقلاب اور مزدور طبقے کے روشن مستقبل پر ان کا یقین ڈگمگایا نہیں۔
ستر کی دہائی میں ’عزیز الحق گروپ‘(ینگ پیپلز فرنٹ) کے ساتھ وابستہ رہے۔ نوے کی دہائی میں ماہنامہ (بعد ازاں ہفت روزہ) ’مزدور جدوجہد‘ کے گرد منظم گروپ میں شامل ہو گئے۔ اسی گروپ نے بعد ازاں لیبر پارٹی پاکستان تشکیل دی اوریوسف بلوچ بھی لیبر پارٹی کے بانی رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ لیبر پارٹی کی طرف سے انہوں نے لاہور کے علاقے مصری شاہ، جہاں ان کی رہائش گاہ بھی تھی، صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں بھی حصہ لیا۔ انہیں زیادہ ووٹ تو نہیں ملے لیکن راقم نے ان کی انتخابی مہم میں حصہ لیا تھا اور راقم علاقے میں ان کی مقبولیت کا چشم دید گواہ ہے۔
2011ء میں جب لیبر پارٹی دیگر دو تنظیموں میں ضم ہو کر عوامی ورکرز پارٹی میں تحلیل ہو گئی تو یوسف بلوچ بھی عوامی ورکرز پارٹی میں شامل ہو گئے لیکن اس سارے عرصے میں وہ ٹریڈ یونین محاذ پر زیادہ سرگرم عمل رہے۔ یوسف بلوچ عملی طور پر چاہے کسی بھی تنظیم یا ٹریڈ یونین کے رکن ہوتے، ملک بھر کی مزدور تحریک اور بایاں بازو ان کو تکریم کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ وہ فرقہ بازی سے بالاتر تھے۔ ان کی ہر دلعزیزی کی وجہ ان کی محبتوں سے سرشار شخصیت تھی۔
ان کی شخصیت کا سب سے مسحور کن پہلو یہ تھا کہ وہ ہر دم مسکراتے ہوئے نظر آتے۔ جب تقریر کے لئے اسٹیج پر آتے (اور بلا شبہ ایک بہترین عوامی مقرر تھے) تو یہ مسکراہٹ غائب ہو جاتی۔ ہاتھ ہلا ہلا کر، پر جوش مگر مدلل انداز میں تقریر کرتے۔ مزدور تحریک کا انسا ئیکلوپیڈیا تھے۔ بے شمار تاریخی واقعات اور انقلابی تحریکوں کے گواہ اور عملی حصہ تھے۔ اپنی تقریروں اور گفتگو میں واقعات کا یوں حوالہ دیتے کہ گویا رننگ کمنٹری کر رہے ہوں۔
سیاسی اجلاسوں میں کبھی کبھار غصہ بھی آ جاتا تو تھوڑی دیر کے بعد بے ساختہ ہنس دیتے۔ ہنسی ان کا قدرتی اظہار تھا۔ دفتر میں تشریف لاتے تو مسکراتے ہوئے داخل ہوتے۔ گلی یا سڑک کنارے نظر آ جاتے تو دیکھتے ہی، دور سے ہی مسکرانا شروع کر دیتے۔
روایتی تعلیم زیادہ نہ سہی مگر گھر کتابوں سے بھرا ہوا تھا۔ کتب بینی کا شوق بچپن سے تھا مگر بائیں بازو سے وابستگی نے اس شوق کو اورپختہ کیا۔ مزدور پریس میں باقاعدگی سے لکھتے۔ خوش لباسی کی عادت تھی۔ مہنگے کپڑے بھلے نہ پہنیں مگر انتہائی تہذیب کے ساتھ کپڑے پہنتے۔ خوش خوراکی کے بھی کئی قصے مشہور تھے۔ اس معاملے میں پکے لاہورئے تھے۔ عمر کے آخری حصے میں ذیابیطس کا شکار ہو گئے تھے مگر میٹھا دیکھ کر ہاتھ روکنا مشکل ہو جاتا۔ ایک بار کسی تقریب میں میٹھے چاولوں پر نمکین چاول ڈال کر کھا رہے تھے۔ کچھ ساتھیوں کی ذمہ داری ہوتی تھی کہ بلوچ صاحب میٹھا کھانے سے باز رہیں۔ جب کسی دوست نے ان کو میٹھے چاول سے منع کیا تو بولے کوئی بات نہیں نمکین چاول میٹھے کو نیوٹرل کر دیں گے۔
بلا کے مہمان نواز بھی تھے۔ سال میں ایک آدھ بار دوستوں کو گھر مدعو کرنا سالہا سال ان کا معمول رہا۔
ایک اہم بات یہ کہ بائیں بازو کے جن نظریات کا پرچار کرتے، اس پر عمل بھی کرتے۔ اس کی بہترین مثال یہ کہ اپنی بیٹیوں کی تعلیم پر بیٹوں سے بھی زیادہ توجہ دی۔ ان کی ایک بیٹی نے گورنمنٹ کالج لاہور سے (جو ان دنوں ملک کی سب سے اہم دانش گاہ تھی) اعلیٰ درجے میں ایم ایس سی کی۔ اسی طرح زندگی بھر ایک سیکولر شخص کے طور پر زندگی گزاری۔
پاک بھارت تعلقات کی بہتری بھی ان کا ایک خواب تھا۔ کئی بار ہندوستان گئے۔ ہندوستان میں پوربی پنجاب سے خاص دلچسپی تھی۔ ہندوستان میں بھی ان کے بے شمار مداح ہیں۔ ایک بار تو گھر بتائے بغیر ہندوستان چلے گئے کیونکہ ان کو ڈر تھا ان کی صحت کے پیشِ نظر ان کی اہلیہ ان کو سفر کی اجازت نہیں دیں گی۔
گذشتہ اتوار کو، عید والے دن بھی وہ ایک بار پھربلا اجازت رخصت ہو گئے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔