مارکسی تعلیم


مارکسی نقطہ نظر اور کلٹ کی مادی اساس

مارکس اس نکتے پر اصرار کرتا ہے کہ’’جب نظریہ عوام کی گرفت میں آ جاتا ہے تو وہ ایک مادی قوت بن جاتا ہے۔‘‘جو ابتدا ء میں محض ایک تجرید یا فکری اظہار دکھائی دیتا ہے، وہ الفاظ کی جادوگری نہیں رہتا بلکہ انسانی عمل، تنظیم اور باہمی رشتوں کو نئے سانچوں میں ڈھال دیتا ہے۔ یہی کیفیت ہم آج کلٹ نما عوامی تحریکوں اور شخصی وابستگی پر استوار سیاست میں دیکھتے ہیں۔

زار شاہی روس جنگ میں

جنگ میں روس کی شمولیت مقاصد اور اہداف کے لحاظ سے داخلی تضادات کا شکار تھی۔ یہ خونریز کوشش بنیادی طور پر دنیا پر غلبہ قائم کرنے کے لئے کی گئی تھی۔ اس لحاظ سے یہ روس کی گنجائش سے بالاتر تھی۔ روس کے جنگی اہداف (ترکی کے پانی کے راستے، گالیشیا، آرمینیا) اپنے کردار میں علاقائی تھے اور ان کا فیصلہ صرف اتفاقی طور پر اس درجے کے مطابق ہی ہو سکتا تھا جس میں یہ فیصلہ کن حریفوں کے مفادات سے مطابقت رکھتے تھے۔

جنگ اور انقلاب

جنگ اور انقلاب کے سوال پر حالیہ عرصے میں اتنی بار اخبارات اور عوامی اجتماعات میں بات ہو چکی ہے کہ غالباً آپ میں سے بہت سے لوگ نہ صرف اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں سے واقف ہوں گے بلکہ کسی حد تک بوریت بھی محسوس کر رہے ہوں گے۔ مجھے ابھی تک اس علاقے میں کسی پارٹی اجلاس یا پبلک اجتماع سے خطاب کرنے‘ بلکہ شرکت کرنے کا بھی کوئی موقع نہیں ملا۔ اس لیے ممکن ہے کہ میں کچھ باتیں دہرا بیٹھوں یا مسئلے کے ان پہلوؤں پر مناسب تفصیل سے بات نہ کر سکوں جو آپ کے لیے زیادہ دلچسپی کا باعث ہیں۔

کامن سینس دانش مندی کی پست ترین شکل ہوتی ہے: ٹراٹسکی

محض جمہوریت اور ”عمومی طور پر تسلیم کی گئی“ اخلاقیات ہی سامراج کے کا شکار نہیں بنے۔ سامراج کے ہاتھوں شہید ہونے والا تیسرا شہید ”عالمگیر“ کامن سینس (عام فہم) ہے۔ کامن سینس دانش مندی کی سب سے پست شکل ہوتی ہے جو نہ صرف ہر طرح کے حالات میں ضروری ہوتی ہے بلکہ بعض حالات میں کامن سینس ہی کافی ہوتی ہے۔کامن سینس کا بنیادی سرمایہ وہ عالمگیر اسباق ہیں جو تجربات کی روشنی میں سیکھے گئے ہیں:آگ میں ہاتھ مت ڈالو، ہر ممکن حد تک سیدھے راستے پر چلو، باولے کتے کو مت چھیڑو۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔

جمالیات کا مارکسی تصور

مارکسی جمالیات کا موضوع فن اور خوبصورتی کے تصور کو معاشرتی اور معاشی حقائق کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ جمالیات کے روایتی نظریات سے ہٹ کر اس بات پر زور دیتا ہے کہ فن محض خوبصورتی یا ذاتی تسکین کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقصد سماجی ترقی اور انسانیت کی خوشحالی کو فروغ دینا ہے۔ جمالیات کی بنیاد ان انسانی تجربات پر ہے جو حسّی ادراک سے وابستہ ہیں، اور یہی تجربات معاشرتی شعور اور سماجی ڈھانچے کی عکاسی کرتے ہیں۔

کیا تحریک انصاف پاپولسٹ جماعت ہے؟ ایک مارکسی تجزیہ

اس مضمون میں دو دلائل پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اول، پاپولزم کو جس طرح لبرل اور مین اسٹریم بیانئے میں ایک تھیوری بنا کر پیش کیا جاتا ہے، وہ تھیوری ہی غلط ہے۔ دوم، پاپولزم کا مارکسی نظریہ پیش کرتے ہوئے ثابت کیا جائے گا کہ تحریک انصاف کوئی پاپولسٹ جماعت نہیں ہے۔

مارکس کا تصورِ بیگانگی

بطور انسان ہم اپنے وجود کی بنیادوں سے اتنے دور ہو چکے ہیں کہ ہماری انسانیت خود ایک سوال بن گئی ہے۔ کیا ہم دوبارہ اپنی انسانی ماہیت کو پا سکتے ہیں؟ کیا ہم دوبارہ اپنے اندر کی انسانیت کو پانے کی جستجو کرسکتے ہیں؟ مارکس کے مطابق،بیگانگی کا خاتمہ تبھی ممکن ہے جب پیداواری وسائل کی نجی ملکیت ختم ہو جائے، اور مزدوری کی نوعیت کو جبری محنت (forced labour)سے بدل کر تخلیقی اور انسانی سرگرمی میں تبدیل کر دیا جائے۔

کیا اجتماعی آزادی کے بغیر شخصی آزادی ممکن ہے؟

”سماج کی کوئی بھی شکل ہو انسان کے باہمی اقدامات کا نتیجہ ہے۔کیا لوگ سماج کی ایک یا دوسری شکل کا انتخاب کرنے میں آزاد ہیں؟ کسی طرح نہیں۔یہ بات کہنا زیادہ ضروری ہے کہ لوگ اپنی پیداواری طاقتوں کا انتخاب کرنے کے لیے آزاد نہیں ہیں کیوں کے ہر پیداواری طاقت ایک حاصل کی ہوئی طاقت ہوتی ہے جو پچھلی نسلوں کی سرگرمیوں کا پھل ہے۔اس طرح پیداواری طاقتیں انسان کی عملی قوت کا نتیجہ ہیں۔انسان کی سماجی تاریخ انسان کی انفردی بقا ء کی تاریخ کے سوا کچھ نہیں ہے خواہ وہ اس کا شعور رکھتے ہوں یا نہ۔“

لینن کی میراث کے 100 سال

21 جنوری 1924ء کو ولادیمیر لینن کی وفات کے بعد سو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ کارل مارکس کی طرح لینن کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جن پر بہتان تراشی کے معاملے میں حکمران طبقات نے کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ نہ صرف قدامت پرست بلکہ لبرل بھی اسے ایک خونی آمر اور اقتدار کے بھوکے غاصب کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جبکہ بائیں بازو کے بیشتر اصلاح پسند‘ حکمران طبقات کے یہ الزامات دہرانے کے ساتھ ساتھ لینن کو ایک ایسے بے صبرے مہم جو کے طور پر پیش کرتے ہیں جس نے اکتوبر 1917ء میں ریاستی اقتدار تک اپنی پارٹی کی رہنمائی کر کے انقلابِ روس کے نامیاتی عمل کو سبوتاژ کر دیا۔ ایسے میں بالشویک انقلاب کو بھی مزدوروں اور کسان سپاہیوں کی ایک عوامی (لیکن منظم) سرکشی کی بجائے ایک ’کُو‘ (اقتدار پر قبضے کی گروہی سازش) کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر کبھی اکتوبر کی سرکشی میں بڑے پیمانے کی عوامی حمایت اور عمل دخل کو تسلیم بھی کیا جاتا ہے تو اسے ایک ’’قبل از وقت‘‘ (پری میچور) اقدام قرار دیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لینن کی پالیسیوں نے ہی آخر کار سٹالنزم کا راستہ ہموار کیا۔

بھوک، انسومنیا اور سوشلزم

انسومنیا اصل میں اس خوف کا نام ہے جو رات بھر سونے کے بعد بھی صبح آنکھ کھلتے ہی کسی خوف کی طرح حملہ آور ہوتا ہے کہ اگلی رات کو کیسے سوئیں گے؟ کیا سو بھی پائیں گے یا نہیں؟
انسومنیا اس بیماری کا نام ہے کہ شام ڈھلتے ہی نیند نہ آنے کا خوف انسان کو گھیر لے اور دل ڈوبنے لگے۔ بے چینی چیونٹیوں کی طرح کندھوں میں سر سرانے لگے۔
بعینیہ ہی بھوک محض بھوکے رہنے کا نام نہیں۔ بھوک اس خوف کا نام ہے کہ آج تو پیٹ بھر کر کھا لیا، کل روٹی نصیب ہو گی کہ نہیں۔بھوک کا احساس روزہ رکھ لینے سے نہیں ہو جاتا۔روزہ رکھنے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ افطاری پر پیٹ بھر کھانا میسر ہو گا۔بھوک روٹی بارے بے یقینی کا نام ہے۔
میری نظر میں سوشلزم اس نظام کا نام ہے جو انسان سے ان کی نیند نہیں چھینتا اور انسان کو بھوک نامی خوف سے نجات دلا دیتا ہے۔