مارکسی تعلیم

فرانز مہرنگ: مارکس کا پہلا سوانح نگار، نطشے کا سوشلسٹ ناقد

جدوجہد ڈیسک

(جرمن مارکسسٹ، فرانز مہرنگ، عالمی مارکسی تحریک کا ایسا ہیرو ہے جسے کافی حد تک بھلا دیا گیا ہے۔ چند ماہ قبل مارکس وادی امریکی جریدے ’جیکوبن‘ نے فرانز مہرنگ پر ایک مضمون شائع کیا۔ ذیل میں قارئین جدوجہد کے لئے حارث قدیر نے اس مضمون کی تلخیص کی ہے۔ امریکہ میں ایک مارکسی گروہ نے اپنے پریس کا نام مہرنگ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے مہرنگ بکس رکھا ہوا ہے لیکن عمومی طور پر یہ نام کم ہی لیا جاتا ہے۔ فرانزمہرنگ نہ صرف مارکس کا پہلا سوانح نگار تھا بلکہ فریڈرک نطشے کا بھی زبردست ناقد تھا۔ اسی کی دہائی میں جب پوسٹ ماڈرن ازم کا رجحان بڑھا تو جرمن فلسفی فریڈرک نطشے کو ایک مرتبہ پھر ایک عظیم فلسفی کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔ اس سے قبل، فاشزم سے ہمدردی رکھنے والے فلسفیوں اور پروفیسروں نے یورپ اندر فریڈرک نطشے کو ایک بڑا فلسفی بنا کر پیش کیا۔ نطشے کا چونکہ علامہ اقبال پر بھی گہرا اثر تھا۔ اس لئے پاکستان میں بھی ادبی و علمی حلقوں میں فریڈرک نطشے بارے ایک دلچسپی موجود رہی ہے۔ فرانز مہرنگ نے فریڈرک نطشے کو ایک مزدور طبقے کا دشمن سمجھا اور سوشلسٹ نقطہ نظر سے فریڈرک نطشے پر زبردست تنقید پیش کی۔ فریڈرک نطشے پر لیون ٹراٹسکی اور ہنگری سے تعلق رکھنے والے مارکسی فلسفی جارج لوکاچ نے بھی مارکسی نقطہ نظر سے تنقید کی۔ مارکس وادیوں کی تنقید شائد ہی دنیا کی کسی یونیورسٹی میں پڑھائی جاتی ہو۔ فرانز مہرنگ کی فریڈرک نطشے پر تنقید انگریزی میں بھی ترجمہ نہیں ہو سکی۔ یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس ہیرو کو بھلا دیا گیا ہے لیکن اس عظیم انقلابی کی تحریریں، تحقیق اور کام مزدور تحریک کا ایک اہم سنگ میل ہے۔ ذیل کا مضمون ایک خاکے کی شکل میں اس عظیم انقلابی کی شخصیت اور کام کا جائزہ ہے۔ علمی حوالے سے بلا شبہ فرانز مہرنگ کا سب سے بڑا کارنامہ کارل مارکس کی پہلی سوانح عمری لکھنا تھا: مدیر)

کارل مارکس کے پہلے سوانح نگار فرانز مہرنگ تھے۔ وہ جرمنی میں سب سے زیادہ مقبول سوشلسٹ صحافیوں میں شمار ہوتے تھے اور جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے اہم رہنماؤں میں گنے جاتے تھے۔ انہوں نے جرمن سوش ڈیموکریٹک پارٹی کی تاریخ بھی لکھی۔ اس کے علاوہ بھی ان کا بے شمار تحریری کام موجود ہے۔

’جیکوبن‘ میں اینڈریو بونیل نے ان کی زندگی اور جدوجہد پر ایک تفصیلی مضمون لکھا ہے۔ مضمون کے مطابق فرانز مہرنگ ادب پر مارکسی تنقید کے علمبردار تھے۔ وہ 27 فروری 1846 کو پروشیا میں پیدا ہوئے اور فروری 1919میں اپنے ساتھیوں روزا لگسمبرگ اور کارل لیب کنیخت کے قتل کے دو ہفتے بعد طویل بیماری کی وجہ سے فوت ہوئے۔

انہوں نے ایک بھر پور زندگی گزاری اور ایک وسیع مواد بھی تحریر کیا۔ ان کے منتخب مضامین کے (سابقہ مشرقی جرمن میں شائع ہونے والے) ایڈیشن کی 15بڑی جلدیں ہیں، حالانکہ ان کی ابتدائی تحریروں اور کچھ مواد کو ایڈیشن میں شامل نہیں کیا گیا۔ تاہم وہ دیگر زبانیں بولنے والے لوگوں میں اب بھی زیادہ معروف نہیں ہیں۔
ان کا سیاسی کیریئر 1871سے لے کر 1918تک محیط تھا۔ ان کا تحریری کام جرمنی میں جمہوریت کے مقدر، جمہوری سیاست کی ترقی میں میڈیا کے کردار اور جرمن سوشلسٹ فکر کے ارتقاء کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔

مہرنگ کا خاندان قدیمی طور پر پروشین تھا۔ ان کے والد ایک سرکاری ملازم تھے اور پروشین تاج کے وفادار اور مخلص نوکر تھے۔ مہرنگ نے ایسے سکولوں سے تعلیم حاصل کی جو بادشاہت کے ساتھ وفاداری اور پروٹسٹنٹ ازم میں یقین پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ایک مرحلے میں انہوں نے پروٹسٹنٹ تھیولوجی کا مطالعہ کرنے کا ارادہ بھی باندھا۔

جرمنی کے سب سے اہم تجارتی شہر اور اشاعتی صنعت کے مرکز لیپزنگ کی یونیورسٹی سے کلاسیکی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مہرنگ برلن چلے گئے۔ جلد ہی ریڈیکل جمہوری سیاست اور صحافت میں قدم رکھ لیا۔

مہرنگ نے سیاست کا آغاز درمیانے طبقے کے ریڈیکل لیفٹ کے ساتھ کیا۔ یہ1848کے انقلابیوں کا ایک گروپ تھا۔ یہ گروپ ابھرتی ہوئی جرمن سوشلسٹ تحریک سے الگ تھا، لیکن اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔ تاہم بعد ازاں وہ جرمن سوشل ڈیموکریٹ پارٹی (ایس پی ڈی) کا حصہ بن گئے۔ مہرنگ نے 1870کی دہائی کا بیشتر حصہ مختلف جمہوری اور لبرل اخبارات کیلئے لکھنے میں صرف کیا۔بدعنوانی کے خلاف لڑائی میں مشغول رہے۔

1978میں بسمارک نے ایس پی ڈی پر پابندی لگا دی اور اس کے بہت سے فعال ارکان کو جلاوطن کر دیا۔ اس ریاستی جبر کے بعد مہرنگ کی سماجی جمہوریت کیلئے ہمدردی دوبارہ زندہ ہونے لگی۔ 1880کی دہائی کے دوران مہرنگ نے پیپلز نیوز کی تدوین کی۔ یہ ایک جمہوری اخبار تھا، جس نے کسی بھی اخبار کی نسبت بائیں بازو کی پوزیشن کو زیادہ نمایاں کیا۔

مارچ 1889میں مہرنگ نے 1848کے انقلاب کی سالگرہ کے موقع پر ایک مضمون شائع کیا، جس میں انہوں نے ان انقلابیوں کو خراج تحسین پیش کیا، جنہوں نے رجعت پسند پروشین اشرافیہ کو چیلنج کیا تھا۔ پولیس نے اس مضمون کی وجہ سے اخبار پر پابندی عائد کر دی۔ یہ واحد کیس ہے، جس میں سوشلسٹ مخالف قانون کے تحت کسی سیاسی اخبار پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ پولیس نے اخبار کے ادارتی دفتر اور مہرنگ کے گھر پر چھاپہ مارا اور ممنوعہ سوشلسٹ لٹریچر ضبط کر لیا۔ جیسے ہی سوشلسٹ مخالف قانون کی معیاد ختم ہوئی، مہرنگ نے پولیس کو خط لکھ کر ضبط شدہ کتابوں، اخبارات اور رسالوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ مہرنگ نے اس کے بعدمارکسی جریدے ’دی نیو ایج‘ کیلئے لکھنا شروع کر دیا تھا۔

مہرنگ کے مضامین سب سے پہلے گمنام طور پر شائع ہوتے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ ابتدائی طو رپر مہرنگ کی جانب سے ماضی میں پارٹی پر کی جانے والی تنقید اور تبصرے تھے۔

1902سے1907تک مہرنگ نے لیپزگ پیپلز ڈیلی کی ادارت سنبھالی۔ یہ اخبار بھی جلد ہی ایس پی ڈی کے ریڈیکل بائیں بازو کا اہم ہتھیار بن گیا، جس نے کافی مقبولیت حاصل کی۔

اپنے باقاعدہ سیاسی تبصروں کے علاوہ غیر معمولی طو رپر مقبول لکھاری کے طور پر مہرنگ نے مختلف اشاعتوں میں ادب اور تھیٹر پر باقاعدہ مضامین اور جائزے بھی شامل کئے ہیں۔ مارکسسٹ اور سوشل ڈیموکریٹ کے طور پر ان کی پہلی بڑی کتاب (The Lessing Legend)ادبی تاریخ کیلئے وقف تھی۔

مہرنگ پارٹی کے سرکردہ مورخ بھی کہلائے۔ 1897-98میں ان کی تحریر کردہ جرمن سوشل ڈیموکریسی کی تاریخ 1891کے ایرفرٹ پروگرام تک شائع ہوئی۔ اس کا دوسرا نظر ثانی شدہ ایڈیشن چار جلدوں میں 1903-04میں شائع ہوا۔

1918میں مہرنگ نے اپنی آخری اہم تصنیف کارل مارکس کی سوانح عمری شائع کی۔ یہ مارکس کی زندگی اور کاموں کے کئی دہائیوں کے مطالعے پر مبنی ہے۔ مہرنگ کو 1880کی دہائی کے وسط سے ہی مارکس کی سوانح عمری لکھنے میں دلچسپی تھی۔ مہرنگ نے مارکس اور اینگلز کے ساتھ لاسال کی خط و کتابت کا ایک ایڈیشن مرتب کیا تھا اور مارکس اور اینگلز کی خط و کتابت کی تدوین کیلئے مارکس کی بیٹی لورا لافرگ کا پسندیدہ انتخاب بھی مہرنگ ہی تھا۔

مارکس کی کئی سوانح عمریوں کے باوجود مہرنگ کا کام نصف صدی بعد ڈیوڈمیک لیلن کی تحریر کردہ سوانح عمری تک سب سے معیاری سوانح حیات قرار پائی۔ ڈیوڈ میک لیلن نے کئی دہائیوں کے اسکالرشپ کے نتائج سے فائدہ اٹھایا،جو مہرنگ کے کام کو مزید بہتر کرنے میں مدد گار ہوئیں۔

مہرنگ کے کام کی کچھ حدود تھیں۔ وہ بہت سی فلسفیانہ بحثوں سے گریزاں تھے۔ اس بات پر مطمئن تھے کہ مارکس کی تاریخی مادیت نے فلسفیانہ مسائل کو ہمیشہ کیلئے حل کر دیا ہے۔

پہلی عالمی جنگ کے دوران جنگ مخالف تحریک کے نتیجے میں اگست 1916میں ان کی گرفتاری ہوئی اور70سال کی عمر میں چار ماہ تک قید میں رہے۔ اگلے سال وہ کارل لیب کینخت کے متبادل کے طور پر پروشین ریاستی پارلیمنٹ کیلئے منتخب ہوئے۔ کارل ابھی تک اپنی جنگ مخالف اور انقلابی سرگرمی کی وجہ سے جیل میں تھے۔

مہرنگ نے پروشین پارلیمنٹ میں دو تقریریں کیں، جن میں سے پہلی میں جنگ کے وقت کی سنسرشپ پر تنقید کی گئی۔ اپنے گرجدار قلم کے باوجود مہرنگ کی آواز کمزور ہوتی تھی۔ زائد عمر، بیماری اور برلن شہر کی جیل میں اس کی حالیہ قید کے اثرات نے اسے مزید کمزور کر دیا تھا۔ پارلیمنٹ میں مخالفین کے شور اور کمزور آوازکی وجہ سے مہرنگ کی دونوں تقریریں کم ہی لوگ سن پائے تھے۔

مہرنگ نے 1917 میں روسی انقلاب کی آمد کا پرجوش انداز میں استقبال کیا، لیکن وہ اتنے بیمار تھے کہ دسمبر 1918 میں جرمنی کی کمیونسٹ پارٹی کے قیام میں ذاتی طور پر شرکت نہیں کر سکے۔

مہرنگ کا زیادہ تر تحریری کام نازیوں نے جلا دیا تھا۔ بعد ازاں 1949کے بعد مشرقی جرمن سوشلسٹ یونٹی پارٹی نے ان کے منتخب کام کو دوبارہ شائع کروایا۔ مہرنگ کا کام آج بھی زیادہ شہرت کا مستحق ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts