افتخارالدین کا انتقال 6 جون 1962ء کو عارضہ قلب کے باعث ہوا۔ انہیں لاہور میں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کی غریبوں، مضارعوں اور مزدوروں کے ساتھ وابستگی کو فیض احمد فیض نے ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا: ”جو رکے تو کوہ گران تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے“۔
تاریخ
اسلم رحیل مرزا کی وائرل ویڈیو: انقلابی بوڑھے کی رومانوی واپسی
ایک نظریاتی آدمی جس رومانس کا شکار ہوتا ہے وہ مارکسسٹ انقلاب سے رومانس کرنے والا ہی جان سکتا ہے۔
امجد شہسوار ایک عملی کردار کا نام ہے
کامریڈ امجد ہمیں دکھی کرگیا مگر ان کا عملی کردار ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔
’ارمغانِ جمیل‘ ڈاکٹر جالبی کو موزوں ترین خراج تحسین ہے
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ان کے ناقدین کیا کہتے ہیں، ان کی علمی خدمات انھیں ان لوگوں کی یادوں میں زندہ رکھے گی جو اردو سے بطور زبان و ادب محبت کرتے ہیں۔
انقلاب کا بے خوف سپاہی
میرا کامریڈ، میرا یار مر گیا
66 ویں برسی پر منٹو کا عالم بالا سے خط
آپ سے صرف یہی کہوں گا کہ یہ منٹو ایڈیشن بھی پڑھئے بلکہ اس کے متعلق گفت و شنید بھی کیجئے تا کہ سوچ کا عمل وسیع ہو۔
فیض نے ترقی پسندوں کی طرف سے لگائے گئے الزامات پر منٹو کا دفاع کیا
سعادت حسن منٹو لاہور میں دفن ہے لیکن اس کے خیالات و نظریات اس کی روح میں زندہ ہیں۔
میں اور منٹو
منٹو کی تحریروں پر کام اور ان پر تحقیق سے میرامنٹو کے ساتھ ایک کبھی نہ ٹوٹنے والا رشتہ بن چکا ہے۔ میں ان کی تحریروں کو پھیلانے کا کام جاری رکھوں گا کیونکہ سچائی جانے بغیر اصلاح ممکن نہیں۔ یہی میرا خراج عقیدت ہے اور یہی میرا اُن حکومتی اہلکاروں سے انتقام ہے جو منٹو کو سچ لکھنے کی سزا دینے کے لیے ان پرمقدمے کرتے تھے۔
شمس الرحمن فاروقی (1935-2020ء)
شمس الرحمن فاروقی اردو ادب کے ناقدین کی ایک نادر نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ ایسی میراث چھوڑ کر گئے ہیں جس کی پیروی کرنا ممکن نہیں۔
چوہدری فتح محمد اور پنجاب کسان تحریک
چوہدری فتح محمد نے نہ صرف زرعی مسائل کے بارے میں بات کی، بلکہ کسانوں کو اجاگر اور متحرک کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔