ان کی ذاتی زندگی میں بھی صحافت کے علاوہ ادب، بالخصوص پنجابی ادب، سے لگاو اہم ترین عنصر تھا۔
تاریخ
بھگت سنگھ: جس کے افکار آج بھی حکمرانوں کے لئے ڈراونا خواب ہیں!
آج ہندوستان اور پاکستان کو ایک خونی سامراجی لکیر ایک دوسرے سے الگ کرتی ہے۔ لیکن دونوں طرف محنت کشوں اور نوجوانوں کے مسائل مشترک ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اُن مسائل کا حل بھی مشترک ہے۔ یہ حل یقینا بھگت سنگھ کے سوشلسٹ انقلاب کے خواب پر ہی مبنی ہو سکتا ہے جس سے آج بھی دنیا بھر کے حکمران خوفزدہ ہیں۔
سب آلٹرن کلاس کی سوانح عمریاں
لینن نے کہا کہ گرائمر کی غلطی بڑا مسئلہ نہیں ہے بڑا مسئلہ سیاسی طور پہ غلط ہونا ہے ۔
جب پنجابی کلچر کے نام پر پنجاب اسمبلی میں ’چھوٹے ملازمین‘ کے سر سے پگ اتروائی گئی
میرا استدلال تھا کہ یہ ایک شرمناک طبقاتی قرارداد ہے جس کے نتیجے میں طبقاتی بنیاد پرپنجاب اسمبلی کے ملازمین کی تذلیل کی گئی ہے۔
پوٹھوہار کی دو ہی تاریخی شخصیات: دادا امیر حیدر اور لال خان
ہم نے نومبر 1980ء میں ’جدوجہد‘ رسالہ کی اشاعت کا آغاز کیا ایمسٹرڈیم سے پھر ملک اخلاق برادران کے شائع کردہ رسالے ’حقیقت‘ کے ’جدوجہد‘ میں ادغام کے بعد یہ بلجیم کے شہر ہاسلٹ میں ہاتھ سے لکھا جاتا، وہیں کے ایک پرنٹنگ پریس سے شائع ہوتا اور پھر ایمسٹرڈیم گروپ کے ذریعے پورے یورپ میں بھیجا جاتا ان کو جو ہمارے ساتھی اور ہمدرد تھے۔ تنویر اور میں اس کے ہر شمارہ میں لکھتے۔ ’جدوجہد‘کے سر ورق ملک شمشاد بناتے جو بعد میں پوسٹرز کی صورت اختیار کر جاتے۔
چشم نم کی روشنی: فیض کی زندگی اور شاعری
پاکستان کے غیر سرکاری شاعر فیض احمد فیض 13 فروری 1911ءمیں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ پاکستان کے قومی شاعر علامہ محمد اقبال اور فیض کا آبائی شہر ایک ہی ہے۔ 1984ءمیں 73 سال کی عمر میں فیض کا انتقال لاہور میں ہوا، جسے زندگی کے آخری برسوں کے دوران وہ اپنا شہر کہنے لگے تھے۔
کشمیر کا ہر باشعور نوجوان مقبول بٹ بن چکا ہے
بٹ صاحب ایک مدبر سیاسی رہنما، علم اور فہم و فراست کے حامل دانشور تھے۔
09 فروری: پاکستانی طلبہ تاریخ کا سیاہ ترین دن
آج سکرینوں پر نظر آنے والی تمام سیاسی پارٹیاں اور ان کی مہان قیادتیں طلبہ یونین پر عائد پابندی پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ گزشتہ سالوں سے طلبہ نے اپنے اس جمہوری حق کے لیے جدوجہد کا شاندار آغاز کیا ہے، جسے ابھی اور منزلیں طے کرنی ہیں۔
زین العابدین: ’وہ جو تھا اب کہیں نہیں ہے وہ‘
دو سال قبل جب روزنامہ جدوجہد کا آغاز ہوا تو زین سے اس پراجیکٹ بارے تفصیلی گفتگو ہوئی۔
کامریڈ امجد شاہسوار جسے موت بھی نہ مار سکی
طاقتور افراد کی حاکمیت کا منکر تھا وہ اکثریتی محنت کشوں کی حکمرانی چاہتا تھا۔