وائے افسوس! اس معتبر کیمپس پر عمران خان جلسہ کر سکتے ہیں، مولانا طارق اپنے رجعتی، عورت دشمن اور عوام دشمن نظریات پیش کرنے کے لئے بطور مہمان خصوصی مدعو ہوتے ہیں اور وائس چانسلر کے پہلو میں بیٹھ کر ہر طرح کی غیر سائنسی، غیر منطقی باتیں طالب علم کو بتاتے ہیں۔
پاکستان
پشاور میں خون کی ہولی کا ذمہ دار کون؟
حملے کے بعد پولیس فورس حیران، غمگین اور برہم تھی۔ رینک اینڈ فائلز سے لے کر بڑے پیمانے پر استعفوں کی کالیں آئیں، لیکن آخر کار انہوں نے سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کیا اور جو نعرے انہوں نے لگائے، وہ وہی تھے جو پی ٹی ایم، این ڈی ایم اور فوج کی جہادی پالیسیوں کے دوسرے ناقدین لگاتے آ رہے ہیں۔ سب سے عام نعرہ یہ تھا کہ ”یہ جو نامعلوم ہیں، یہ ہمیں معلوم ہیں“، جو فوج کے جہادی حامیوں کا ایک باریک پردہ دار حوالہ ہے۔ ایک ایسے ملک میں، جہاں پولیس کی آخری ہڑتال 1970ء کی دہائی میں ہوئی تھی، کے پی پولیس کا عوامی سطح پر احتجاج اور عملی طور پر فوج پر پشاور میں خونریزی کا الزام لگانا ایک بہت اہم پیش رفت ہے۔
جموں کشمیر: بجلی پر سبسڈی اور رعایتیں، فائدہ کسے ہوتا ہے؟
کسی بھی خطے کے وسائل پر پہلا حق اس خطے میں بسنے والے شہریوں کا ہوتا ہے۔ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر پاکستان کی فیڈریشن کا آئینی حصہ نہیں ہے۔ اس لئے اس خطے کے پاکستان کی فیڈریشن کے ساتھ تعلق کو صوبوں کی طرز پر قائم کرنے اور دیکھنے کا عمل ہی غلط ہے۔ اس خطے سے 3 ہزارمیگا واٹ سے زائد بجلی پیدا ہو رہی ہے اور مزید منصوبہ جات تعمیر ہونے کی صورت یہ پیداوار 5 ہزار میگا واٹ تک پہنچ جائے گی۔ اس خطے کی بجلی کی کل ضرورت 350 سے 400 میگا واٹ کے درمیان ہے۔
طالبان ریاست کا مقدس فرنکنسٹائن ہے
بلاشبہ طالبان پاکستانی ریاست کا فرنکنسٹائن ہیں…مگر یہاں معاملہ ذرا پیچیدہ ہو چکا ہے۔ پاکستانی ریاست اس فرنکنسٹائن کی ایجاد پر کسی پچھتاوے کا اظہار نہیں کر تی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طالب ایک مقدس فرنکنسٹائن بن چکا ہے۔ تقدیس کی حامل کسی بھی ہستی، مظہر، یاگروہ پر حملہ بلاسفیمی کے زمرے میں آتا ہے۔
کیا آئی ایم ایف نجات دہندہ ہے؟
ستم ظریفی کی انتہا دیکھئے: ایک ادارہ جسے پوری دنیا درجنوں ممالک میں عوام دشمنی، ایلیٹ ازم، غربت میں اضافے، پس ماندگی اور مصائب کا ذمہ دار قرار دیتی ہے…اسے پاکستان کا واحد نجات دہندہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ لگتا یوں ہے کہ اس ملک کے حکمران اسی معاہدے پر دستخط کرنے جا رہے ہیں جو لگ بھگ ایک سال سے التوا کا شکار تھا۔
ملک گیر بلیک آؤٹ: منصوبہ بندی کیلئے منڈی کی معیشت کا خاتمہ ناگزیر
یہی حال پانی کی فراہمی، نکاس، تعلیم، علاج، ریلوے، شہری سڑکوں وغیرہ سمیت ایسے تمام شعبوں اور پبلک سروسز کا ہے، جن کی بنیادوں پر کوئی معاشرہ تعمیر پاتا ہے۔ نام نہاد ترقی پذیر ممالک، جو درحقیقت غربت اور پسماندگی کے گھن چکر میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں اور جہاں انسانیت کی وسیع اکثریت بستی ہے، میں صنعتکاری اور جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لئے درکار وسائل اور دستیاب وسائل کے درمیان بہت بڑی خلیج حائل ہے، جسے سرمایہ داری کے تحت عبور نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان نیشنل آرٹس کونسل خط اقلیتوں سے متعلق ریاستی پالیسی کا عکاس
یہ تقریری مقابلہ ’جنت کسی کافر کو ملی ہے، نہ ملے گی‘ کے عنوان پر منعقد کروایا جا رہا ہے۔ جموں کشمیر کو جنت ارضی قرار دیتے ہوئے ایک عرصہ سے بنیاد پرست اور عسکریت پسند تنظیموں کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ جموں کشمیر ایک جنت ہے اور بھارت کافروں کا ملک ہے، جسے جنت کسی صورت نہیں مل سکتی۔
نوجوانوں کی سیاست سے بدظنی اور مستقبل کی جدوجہد
اگرچہ نوجوانوں کے اندر عمران خان کے لیے کچھ نرم گوشہ پایا جاتا ہے، لیکن وہ بھی پرانی جماعتوں اور لیڈروں کے ردعمل میں ہی انتہائی بددلی اور مایوسی میں یہ کرتے نظر آتے ہیں۔
سول ملٹری دراڑ کیوجہ سے 4 بار پاک بھارت امن ناکام ہوا
مقصد سرحد پار لوگوں کو خوش کرنا تھا کیونکہ اس میں مودی کی تعریفوں کے پل باندھے گئے ہیں۔ ادہر، جنرل باجوہ کے آئی ایس پی آر کی کوشش تھی کہ مودی کو ”گجرات کا قصاب“ بنا کر پیش کیا جائے۔ 2022ء میں بننے والی ویب سیریز ”سیوک: دی کنفیشنز“ ایک نجی ادارے نے بنائی۔ اسے آئی ایس پی آر کا تعاون بھی حاصل تھا۔ اس سیریز میں تاریخ اور سیاست کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اداکار ہندوستان میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہندتوا پر تنقید کی گئی ہے۔ یہ وہی باتیں ہیں جو عمران خان کی حکومت کیا کرتی تھی۔ ذرائع کے مطابق جنرل باجوہ اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے اس سیریز کو ریلیز کرانا چاہتے تھے۔
انسداد پولیو مہم کے نام پر پشتونوں کی سٹیرئیو ٹائپنگ
اس کے علاوہ پاکستان کے پولیو ایریڈیکشن پروگرام کے یوٹیوب چینل پر درجنوں ایسی ویڈیوز موجود ہیں، جن میں پشتون عوام کو پولیو مہم مخالف قراردیا گیا ہے۔ ’پہلا قدم‘ اور ’اڑان‘ کے نام سے دو شارٹ فلمیں بھی بنائی گئی ہیں، جن میں پشتون علاقوں میں لوگوں کی انسداد پولیو ویکسین کے خلاف مزاحمت اور پھر انہیں اس کی حمایت کرنے پر قائل کئے جانے کی کہانیاں بتائی گئی ہیں۔ پولیو سے متاثر ہونے والے نوجوانوں کے کردار بھی پشتون ہی دکھائے گئے ہیں۔