پاکستان

جنرل جنجوعہ کی نواسی خدیجہ شاہ کے نام ایک خط

فاروق سلہریا

محترمہ خدیجہ صاحبہ! سلام۔

آپ کی آڈیو سنی تو میرا یہ یقین اور پختہ ہو گیا کہ پی ٹی آئی ظالموں کی مظلومیت کا اظہار ہے۔ مجھے معلوم ہے آپ ’جدوجہد‘ ایسے بائیں بازو کے کسی اخبار کی قاری نہیں ہو سکتیں لیکن یقین کیجئے ان صفحات پر ہم نے پاکستان تحریک انصاف کے سیاسی و طبقاتی کردار پر جتنے تجزیئے کئے ان کو درست ثابت کرنے کے لئے آپ کا کردار اور آپ کی آ ڈیو ایک بہترین کیس سٹڈی ہے۔

اس خط میں ذاتی باتیں ذرا تفصیل سے کی جائیں گی۔ آپ نے سنا تو ہو گا پرسنل از پولیٹیکل۔ اس لئے ’ذاتی‘ باتوں کا برا مت منائیے گا۔ بات شروع کرتے ہیں سیاسی نظریات سے۔ بطور پی ٹی آئی آپ ساری قوم یوتھ کا سب سے بڑا نعرہ یہ تھا کہ سب سیاستدان چور ہیں اور ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ کئے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ آپ کے بیانئے میں خامی یہ تھی کہ آپ ادارہ جاتی بدعنوانی کا ذکر نہیں کرتے تھے۔ اس ادارہ جاتی بدعنوانی کا سب سے بڑا اظہار فوج، جرنیل شاہی، افسر شاہی، عدالت عظمی و اعلیٰ کے سپریم ججوں، سرما یہ داروں، بڑے زمینداروں کو ملنے والی 17 ارب ڈالر کی مراعات ہیں۔ آپ کے نانا اور خاندان کے دیگر افراد کو بھی یہ مراعات ملی تھیں جن کی مالیت اربوں روپے بنتی ہو گی۔

جب آپ کے ساتھی کور کماندڑ ہاوس کی لوٹ مار کر رہے تھے تو جنرل صاحب کا مور اٹھاتے وقت یہی موقف اپنایا گیا تھا کہ یہ سب ٹیکس دہندگان کا مال ہے جو وہ واپس لے کر جا رہے ہیں۔ میں بزدل سا آدمی ہوں۔ ٹکر کے لوگوں میں شمار نہیں ہوتا۔ اس لئے تھوڑے لکھے کو زیادہ جانیں۔ عرض صرف یہ کرنا تھی کہ جس ادارہ جاتی کرپشن سے آپ کے خاندان نے اربوں کمائے، وہ ہم غریب ٹیکس دہندگان کو واپس کر دیجئے۔ واپسی کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ یہ اربوں روپے احساس پروگرام کو دے دیجئے کیونکہ بے نظیر انکم سپورٹ کو اس کے نام کی وجہ سے آپ پسندنہیں کرتی ہوں گی۔

آپ کی آڈیو سے مزید پتہ چلا کہ آپ جمہوریت پسند ہیں اور حقیقی آزادی کی قائل ہیں۔ امید ہے آپ اپنے والد سلمان شاہ کے خلاف بھی کسی دن یہ موقف اختیار کریں گی کہ انہوں نے جنرل مشرف کی فوجی آمریت کا حصہ بن کر جمہوریت کا نقصان کیا۔ امید ہے آپ کے والد بھی اپنی اس جمہوریت دشمنی پر پاکستانی شہریوں سے معافی مانگیں گے کیونکہ جب سے آپ روپوش ہوئی ہیں انہیں بھی جمہوریت کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا ہے۔ ویسے کبھی سوچا، یا آپ کے والد نے (جو ماہر معیشت ہیں) کبھی بتایا کہ غیر ملکی قرضوں کی واپسی، نئیو لبرلزم، نج کاری، آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عمل درآمد بھی انتہائی غیر جمہوری معاشی اقدامات ہیں۔

بات جمہوریت کی چل رہی ہے تو تھوڑا سا ذکر آپ کے شہید نانا کی جمہوریت کے لئے خدمات کا بھی ہو جائے۔ جب وہ کراچی کے کور کمانڈر تھے تو ملک میں ماہنامہ ہیرلڈ بہت شوق سے پڑھا جاتا تھا۔ ہمیں ہیرلڈ کے ذریعے پتہ چلتا تھا کہ آپ کے نانا کو بے نظیر بھٹو سے شدید نفرت تھی اور وہ صحافیوں کو بلا کر بتا یا کرتے تھے کہ پاکستان میں مارشل لا ہی بہتر آپشن ہے۔ ان دنوں کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن وغیرہ بھی ہوتے تھے۔ فوجی آپریشنز کے دوران، ایم کیو ایم بھی جمہوریت اور انسانی حقوق کا واویلا اسی طرح کرتی تھی جس طرح نو مئی سے آپ لوگ کر رہے ہیں۔ پھر آپ کے نانا فوجی سربراہ بن گئے۔ نواز شریف ان دنوں لاڈلا کہلاتے تھے۔ حسب معمول لاڈلے کو جب بدترین انتخابی دھاندلی (جس کا اقرار سپریم کورٹ نے بیس سال بعد اصغر خان کیس میں کیا) کے ذریعے اقتدار دیا گیا تو وہ بھی عمران خان کی طرح بگڑ گئے۔ سنا ہے آپ کے نانا مارشل لا لگانے ہی والے تھے کہ دل کا دورہ پڑنے سے شہید ہو گئے (کسی بہادر فوجی جرنیل کے لئے ہلاک کا لفظ استعمال کرتے ہوئے نہ صرف کلیجہ منہ کو آتا ہے بلکہ آنکھوں کے سامنے ویگو ڈالا بھی گھوم جاتا ہے)۔ آپ کے نانا نے بطور کراچی کور کمانڈر جو کچھ کیا، یا بطور فوجی سربراہ انہوں نے مبینہ طور پر نواز شریف حکومت کے خلاف اگر کوئی جمہوریت دشمن اقدامات کئے تھے، تو کسی دن کسی آڈیو میں اس کی وضاحت بھی کر دیجئے گا۔ ہم جیسے اناڑی تاریخ دانوں کو تاریخ درست کرنے میں مدد ملے گی۔

آپ چونکہ خود ایک دردمند خاتون ہیں، امریکی شہری بھی ہیں جہاں خواتین کو بے شمار حقوق حاصل ہیں، اس لئے سر راہ ذرا فیمن ازم کا تذکرہ بھی ہو جائے۔ ویسے بھی آپ کی پارٹی کے لوگ فیمن اسٹ تحریک کو طعنے دے رہے ہیں کہ انہوں نے ریاستی مظالم پر تحریک انصاف کا ساتھ نہیں دیا۔ مجھے باقیوں کا تو پتہ نہیں لیکن بطور مارکس وادی فیمن اسٹ میں ہر قسم کے ریاستی جبر کے خلاف ہوں۔ آپ کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ درج نہیں ہونا چاہئے۔ ریاستی تشدد کا استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ جس نے بلوہ کیا، اس کے خلاف مہذب انداز میں قانونی کاروائی ہونی چاہئے۔ جس نے بھی کور کمانڈر ہاوس سے مور چرایا، اس کو گرفتار کر کے اس قومی مور کو سرکاری تحویل میں لیا جائے یا کم از کم لاہور کے چڑیا گھر کو سونپ دیا جائے۔ ویسے سنا ہے یہ مور تھا نہیں، کوا تھا۔ سرکاری راشن کھا کھا کر مور بن گیا۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ فیمن ازم کی طرف واپس آتے ہیں۔

امید ہے جب فاروق بندیال کو پی ٹی آئی میں شامل کیا گیا تھا تو آپ نے بھی احتجاج کیا ہو گا اور فلم ایکٹرس شبنم سے معافی مانگی ہو گی۔ جب آپ کے محبوب رہنما عمران خان ریپ کا الزام ریپ وکٹم پر لگاتے تھے اور بتایا کرتے تھے کہ پاکستانی مرد روبوٹ نہیں ہیں، تو آپ نے کم از کم اپنی دوست عندلیب عباس کے سامنے شکوہ کیا گیا ہو گا کہ ایسا کرنا درست نہیں، یہ عورت دشمنی ہے جس کے نتیجے میں پاکستانی خواتین کے خلاف جنسی تشدد میں اضافہ ہوتا ہے۔

ٓضمناََ یہ بھی پوچھنا تھا: آپ لوگ (یعنی جرنیلوں کی اولادیں) امریکی شہریت کیسے لے لیتے ہیں؟ اور کیوں لے لیتے ہیں؟ آپ کے پاس تو اللہ اور ریاست کا دیا سب کچھ ہوتا ہے، پھر ’وطن کی مٹی گواہ رہنا‘ بھی سب سے زیادہ آپ ہی الاپتے ہیں۔ ہم جیسے غریب غربا کشتیوں پر سوار ہو کر یورپ پہنچنے کی کوشش کریں تو کچھ سمجھ میں آتا ہے۔ آپ کیوں؟ خیر فی الحال چھورئیے۔

اپنی آڈیو میں آپ بار بار یاد دلاتی ہیں کہ آپ جمہوریت پسند ہیں اور حقیقی آزادی کی قائل ہیں۔ امید ہے آپ کے گھریلو ملازمین کو بھی حقیقی آزادی حاصل ہو گی۔ انہیں نہ صرف پاکستانی قوانین کے مطابق کم از کم اجرت ملتی ہے بلکہ آپ نے ان کو محکمہ سوشل سیکیورٹی میں بھی درج کرا رکھا ہے۔ آپ چونکہ سویڈن والے عمر ز لا کی بھی بہت قائل رہی ہیں، اس لئے امید ہے آپ خلفا ء راشدین کی طرح اپنے گھریلو ملازمین (جن میں سے ایک آدھ کا ذکر آپ کی آڈیو میں خانساماں کے طور پر آیا، مجھے امید ہے ’خانساماں‘ کا کوئی نام بھی ان کے ماں باپ نے رکھا ہوگا، ممکن ہے یہ نام سلمان شاہ ایسا خوبصورت ساونڈ نہ کرتا ہو، مگر کوئی نام تو ہو گا) کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھ کر ایک ساتھ کھانا کھاتے ہوں گے۔ ان کو امریکی مزدوروں کی طرح سالانہ،ہفتہ وار اور بیماری کے دوران جب آپ چھٹی دیتی ہوں گی تو ان کی تنخواہ نہیں کٹتی ہو گی۔

آپ نے اپنی ویڈیو میں کہا کہ جو کچھ آپ کے خاندان کے ساتھ ہوا، کسی کے ساتھ نہ ہو۔ معلوم نہیں آپ کا خڑ کمر واقعہ پر کیا رد عمل تھا، لیکن امید ہے آئندہ جب کوئی بلوچ لاپتہ ہو تو آپ اس کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے پر امن انداز میں پھر سے کور کمانڈر ہاوس کے باہر نہ سہی، کسی کرنل ہاوس کے باہر ضرور مظاہرہ کریں گی۔ میری اطلاعات کے مطابق، کور کمانڈر کی اہلیہ سے بھی آپ کی دوستی تھی۔ وہ اتفاق سے عزت ماب عطا بندیال کی اسی طرح سے کزن ہیں جس طرح فاروق بندیال۔ ان کے ذریعے کسی دن بندیال صاحب کو پیغام بھیجئے گا کہ علی وزیر پر بھی لگے ہاتھوں جھوٹے مقدمات ختم کروا دیں۔

خط تھوڑا لمبا ہوتا جا رہا ہے لیکن یہ سوچ کر قلم نہیں روک رہا کہ روپوشی کے دوران کرنے کو زیادہ کچھ ہوتا نہیں، یہ خط پڑھتے پڑھتے کچھ وقت کٹ جائے گا۔ آپ کی آڈیو میں آپ نے اپنے خاندان کی قربانیوں کا بھی ذکربھی کیا ہے۔ سر راہ جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کون سی قربانیاں ہیں جن کا ذکر آپ نے اپنی آڈیومیں کیا ہے؟ کیا جنرل صاحب کو جو ’بینی فٹس‘ ملے تھے (جن کی مالیت شائد اربوں میں ہو) آپ نے قومی خزانے میں یہ کہہ کر جمع کرا دیے تھے کہ ان سے پاکستان کا قرضہ اتار دیا جائے؟ اور اگر ایسا ہے کہ یہ جائداد ذرا لمبا جھگڑا ہے تو سائفر کیس میں بطور احتجاج امریکی شہریت کسی دن اسلام آباد جا کر امریکی سفیر کے منہ پر مار آئیں۔

جائداد سے یاد آیا،نواز شریف کو نا اہل قرار دیتے ہوئے ہمارے ایک معزز جج نے درست طور پر بالزک کی یہ بات دہرائی تھی کہ ہر بڑی جائداد کے پیچھے ایک بڑا جرم ہوتا ہے۔ جائداد نواز شریف کی ہو، ملک ریاض کی یا کسی جرنیل اور جج کی، میرا موقف ہے قومی ملکیت میں لے لینی چاہئے۔ پھر ہی حقیقی آزادی کے سفر کا آغاز ہو گا۔ دوران روپوشی غور کیجئے گا۔

اچانک یاد آیا کہ جب آپ کے نانا نے جام شہادت پیا تو اس کا الزام نواز شریف پر لگا اور یہ پراپیگنڈہ کیا گیا کہ نواز شریف نے انہیں زہر دیا۔ اتفاق سے جب دو تین دن پہلے عمران خان شوکت خانم میں روپوش ہوئے تو سوشل میڈیا پر پراپیگنڈہ کیا گیا کہ عمران خان کو زہر دیا گیا ہے۔ امید ہے زہر دینے کی ان سازشی تھیوریوں پر بھی آپ کوئی موقف اختیار کریں گی۔ اس بابت آپ کی اگلی آڈیو کا انتظار رہے گا۔

ٓآپ کے پاس ان دنوں کافی وقت ہے۔ دلچسپی کے لئے پی ٹی آئی پر لکھے گئے جدوجہد کے بے شمار مضامین آپ کی توجہ کے لئے بطور لنک بھیج رہا ہوں:
https://twitter.com/i/status/1660002758198476800

امید ہے آپ روپوشی میں اپنے ذوق مطالعہ کو پروان چڑھانے کے لئے ’روزنامہ جدوجہد‘ کو توجہ سے پڑھتی رہیں گی۔ اپنا خیال رکھئے گا۔

فقط۔

فاروق سلہریا

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔