”ہم شدید سردی اور شدید گرمی کے موسم میں بھی خیموں میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پہ مجبور ہیں۔ جگہ کی اتنی کمی ہے کہ بعض دفعہ ایک کلاس کو چھٹی دی جاتی ہے اور دوسری کلاس کی بچیوں کو سکول بلا کرکلاس لی جاتی ہے۔ میں اور میری سہیلیاں چاہتی ہیں کہ ہم پڑھ لکھ کر کچھ بن سکیں، مگر ان حالات میں تعلیم حاصل کرنا بہت مشکل لگتا ہے۔ ہمارے والدین کے پاس پرائیویٹ سکول میں تعلیم دلوانے کے پیسے نہیں ہیں۔“
پاکستان
رجسٹرار صاحب یہ ’کاکول اکیڈمی‘نہیں قائد اعظم یونیورسٹی ہے
پاکستان کی معروف جامعہ قائد اعظم یونیورسٹی کے سابق رجسٹرار راجہ قیصر احمد نے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹرپر ایک تفصیلی خط تحریر کرتے ہوئے جامعہ میں اپنے کئے گئے تمام طلبہ دشمن اقدامات کو جواز مہیا کرنے کی کوشش کی ہے۔ جامعہ میں طلبہ کی تمام سرگرمیوں کو تعلیم دشمن قرار دیا ہے اور جامعہ میں داخلوں کی کمی کا الزام بھی طلبہ پر ہی دھر لیا ہے۔
پاکستان کی ڈیجیٹل مردم شماری اور جموں کشمیر کا المیہ
اس متنازعہ خطے کی تمام اکائیوں میں بسنے والی تمام قومیتوں، زبانوں اور ثقافتوں کے حامل محنت کشوں کے مابین اتحاد اور مشترکہ جدوجہد کی بنیادیں رکھنے کیلئے حکمت عملی اپناتے ہوئے قومی، لسانی اور ثقافتی شناخت اور آزادی کو محفوظ رکھتے ہوئے ایک فیڈریشن کے قیام کیلئے جدوجہد کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس جدوجہد کی فتح مندی کیلئے بھارت اور پاکستان کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی حمایت حاصل کرنا ناگزیر ہے۔ تاہم عبوری پروگرام کے ذریعے درست سمت میں جدوجہد کو آگے بڑھانے کا عمل ان نتائج کے حصول کو قریب سے قریب تر کرتا جائے گا۔
اہل زمان پارک کے نام کابل سے ایک خط
کابل چالیس سال خونی قسم کا زمان پارک بنا رہا۔ یہاں جب ’پر امن احتجاج‘ہوتا تھا پٹرول بم نہیں، خود کش بم پھٹتے تھے۔ یہاں پنجاب پولیس نہیں سویت روس، امریکہ، سی آئی اے، القاعدہ، ’دنیا کی نمبر ون‘، سعودی مخبرات، پوری مسلم ورلڈ کے جہادی، پاکستان اور کشمیر کے مجاہدین…ہمارے سکولوں، ہسپتالوں، قبرستانوں، درگاہوں، بازاروں، شاہراہوں، گوردواروں، مندروں اور مسجدوں پر کبھی جہازوں سے مدر آف آل بامبز گراتے تو کبھی مومن بھائی جنت کی تلاش میں کابل کی کسی بستی کو جہنم بنا دیتے۔
’بلوچستان میں فوج نہ ہوتی تو بی ایل اے بھی نہ ہوتی‘
اکثر پاکستانیوں کی طرح میرے دوست کی نظر میں بھی بلوچستان محض ایک جنگ زدہ خطہ ہے جہاں مانگ بندوق کی ہے کتاب کی نہیں۔ میری اس دوست سے یہ گفتگو گوادر بک فیسٹیول 2023ء میں شرکت کے بعد اسلام آباد واپسی پر ہوئی۔ میں نے اپنے دوست کو بتایا کہ بلوچستان بارے ان کا تاثر غلط نہیں بلکہ شدید غلط ہے۔ بلوچ نوجوان علم کی پیاس رکھتے ہیں۔ وہ لاہور، کراچی یا اسلام آباد میں ہونے والے ادبی میلوں کے مقابلے پر تین گنا زیادہ کتابیں خریدتے ہیں۔
سانحہ کیتھران: سفید کپڑوں میں لپٹے تابوت انصاف کے منتظر
’میں یہاں اس لئے آئی ہوں تاکہ انصاف کی بالادستی ہو، تاکہ خواتین اور ان کے بچوں کے خلاف اس طرح کے المناک واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔‘ انکا کہنا تھا کہ ’میں یہاں اس لئے آئی ہوں تاکہ بلوچوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کو روکا جا سکے۔ میں امید کے خلاف سردار عبدالرحمن کیتھران کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے آئی ہوں، کیونکہ انہوں نے صوبائی حکومت میں وزیر ہونے کے باوجود قانون اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ میں یہاں اس نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانے آئی ہوں، جو ہمارے معاشرے میں رائج ہے۔‘
طالبان زرداری بھٹو
معلوم نہیں کسی نے انہیں یاد دلایا یا نہیں کہ جب ناٹو اور امریکہ افغانستان میں موجود تھے تو طالبان اسلام آباد میں ریاست کے شاہی مہمان بن کر رہ رہے تھے۔ جب امریکہ رخصت ہوا تو فتح کے شادیانے بجائے گئے۔ ملک کے وزیر اعظم نے کہا کہ غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئی ہیں تو اپوزیشن رہنما خوجہ آصف کو لگا کہ طاقت امریکہ کے پاس ہے مگر اللہ طالبان کے ساتھ ہے۔ جنرل فیض حمید چائے پینے سرینا ہوٹل کابل پہنچے ہوئے تھے۔ تب تو بلاول بھٹو نے امریکہ سے گلا نہیں کیا کہ بھائی کیوں جا رہے ہو؟ (واضح رہے، اس دلیل کا مطلب افغانستان پر امریکی قبضے کی حمایت نہیں، مقصد صرف بلاول بھٹو کے تضادات کو اجاگر کر نا ہے)۔
ڈیل یا ڈیفالٹ: کیا یہ پاکستان کے لیے ’اینڈ گیم‘ ہے؟
ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ اب بھی حالات کی سنگینی کا ادراک کرنے سے انکاری ہے اور ان مراعات کو قربان کرنے کیلئے تیار نہیں، جو وہ کئی دہائیوں سے حاصل کر رہی ہے۔ غیر ضروری فائدے کم کرنے کی بجائے ایک بار پھر اس کا بوجھ محنت کش طبقے پر ڈالنے کا عزم کر لیا گیا ہے۔ ملک ڈوب رہا ہے، لیکن قرضوں میں لت میں مبتلا حکمران اشرافیہ یہ سمجھتی ہے کہ وہ ان شورش زدہ پانیوں سے تیر کر نکلے گا، کیونکہ دنیا اسے ڈوبتا ہوا دیکھنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ تاہم اس بار دنیا پاکستان کو اس وقت تک بیل آؤٹ کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آتی، جب تک کہ اس کی حکمران اشرافیہ اپنی مدد کیلئے خود تیار نہ ہو۔
پاکستان میں افغان مہاجرین کی حالت زار
بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے ساتھ مل کر آنے والے معاشی دیوالیہ پن کی وجہ سے پاکستان میں زینوفوبیا (قومیت یا نسل کی وجہ سے تعصب اور نفرت) شدت اختیار کر گیا ہے۔ مہاجرین کو جرائم، منشیات اور دہشت گردی کا ذمہ دار قراردیا جاتا ہے۔ افغان مہاجرین کی لیبر مارکیٹ (خاص طور پر تعمیراتی اور زرعی کام) میں شراکت اور پاکستانی کاروبار (ٹرانسپورٹ اور فوڈ) میں سرمایہ کاری غیر تسلیم شدہ ہے۔ صحت اور رہائش پر ان کے اخراجات اور 2 ارب روپے،جو ان کے بیرون ملک رشتہ دار انہیں پاکستان کے بینکنگ چینلوں کے ذریعہ بھیجتے ہیں، اسے بھی نظرانداز کیا جاتا ہے۔
کیا جنرل مشرف لبرل تھے؟
اعزاز سید نے اپنے ویلاگ ’ٹاک شاک‘ میں جنرل مشرف سے اپنی ملاقاتوں کا احوال سنایا اور جنرل مشرف کی’لبرلزم‘کا ذکر کرتے ہوئے بتا یا کہ جنرل مشرف اس بات پر بہت خوش ہوئے جب اعزاز سید نے انہیں بتایا کہ وہ خواتین میں بہت مقبول ہیں۔