پھر سے شہر خوباں میں بازار ہوس گرم ہے۔ یار لوگوں نے ایمان، ضمیر، احساسِ ذمہ داری، جبہ و دستار، سب بیچ بازار رکھ دیے ہیں۔ جس کو جو چاہیے خرید لے۔ بس بولی لگے گی۔ آخر کو جب عزتِ اسلاف بیچنا ہی ٹھہرا تو دام تو کام کے ملیں۔ سر ننگا ہی کرنا ہے تو کاسہ تو پْر ہو۔ خریدو! کیا چاہیے؟
پاکستان
کیا عدالت بھی آج عمران خا ن کی طرح سرپرائز دے سکتی ہے؟
اس طرح سپریم کورٹ ایک ایسے غیر آئینی اقدام کی توثیق کرے گی جس کے بارے میں خود عمران خان کی ٹیم کو بھی اندازہ ہے کہ یہ غیر آئینی اقدام ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر تو مسلسل یہ بحث جاری ہے کہ کیا اس اقدام کے بعد عمران الیون پر آئین کے آرٹیکل چھ کا اطلاق ہوتا ہے کہ نہیں۔ ابھی تک کسی ماہر قانون نے یہ رائے نہیں دی کہ اس اقدام کا کسی بھی طرح قانونی، اخلاقی یا آئینی حوالے سے دفاع کیا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا اقدام جس پر پورے پاکستان میں کم از کم یہ اتفاق موجود ہے کہ وہ غیر آئینی ہے، اسے عدالت آئین کا لبادہ پہنانے میں چاہتے ہوئے بھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔
جمہوریت کی بقا و آئین کی بالادستی یا طاقت کی رسہ کشی
ملکی سالمیت کی بقا، آزاد خارجہ پالیسی، غیر ملکی مداخلت مخالف نعرے بازی اور بھڑک بازی کا عقدہ گھاگ سمجھے جانیوالے دانشوروں کے مطابق محض ایک تقرری کے اختلاف تک چھوٹا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے وہ درحقیقت متضاد معاشی مفادات کے باعث چھینا جھپٹی میں ملکی معیشت، سیاست اور معاشرت تک کو برباد کر دینے کی ایک پیچیدہ اور مشکل لڑائی کی شکل میں سامنے آ رہا ہے، جس میں تقرری ایک انتہائی اہم کڑی ضرور ہو سکتی ہے، مگر کل لڑائی نہیں۔
جدوجہد نے کہا تھا: ’جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ سے پہلے عمران خان ریٹائرہرٹ ہو جائیں گے‘
آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کی تعیناتی کے سوال پر بظاہر جنرل قمر جاوید جاجوہ اور وزیر اعظم عمران خان کے مابین جو اختلافات سامنے آئے، یہ دراصل حکومت اور فوج کے مابین لڑائی تھی ہی نہیں۔ یہ فوج کے اندرونی اختلافات کا اظہار تھا۔ سیاسی و سماجی تضادات کا اظہار لازمی طور پر اس طرح نہیں ہوتا جس طرح آئینے میں عکس دکھائی دیتا ہے۔
بھٹو چورن اب عمرانی پنی میں
بینظیر بھٹو اپنے تجزیئے میں بطور نتیجہ لکھتی ہیں کہ 1977ء میں پاکستا ن میں جو حالات خراب ہوئے، (جسکے بعد مارشل لا آیا اور بھٹو کو پھانسی دی گئی) وہ سب اس لئے برپا ہو سکا، کیونکہ چند افراد نے یہ سب کچھ ہونے دیا۔ چند افراد یہ سب کچھ روک سکتے تھے۔ ملک میں ہڑتالوں اور تشدد کے واقعات کو ایم این اے لیڈر شپ روک سکتی تھی اور چیف آف آرمی اسٹاف اپنی ذات کے بارے میں سوچنے کی بجائے ملک کے فائدے کو ترجیح دے سکتے تھے۔
حکمرانوں کے نظام پر محنت کش کا عدم اعتماد
حکمران جماعت اور اپوزیشن اتحاد دونوں کے پاس ایک دوسرے کی ذات پر کیچڑ اچھالنے، کردار کشی کرنے اور بہتان تراشی کے سوا محنت کش عوام کو درپیش مہنگائی، بیروزگاری، نجکاری، لا علاجی اور عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی سے نجات کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ کسی میں یہ جرات نہیں ہے جو آئی ایم ایف کی پالیسوں پر عمل درآمد کرنے سے انکار کرے اور ان کے قرضے ضبط کرنے کی بات کر سکے۔ اپوزیشن اتحاد یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ اگر عمران خان کی حکومت قائم رہی تو قیامت آ جائے گی۔ حکمران جماعت قومی سلامتی اور خود مختاری کا پرانا چورن فروخت کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کو بیرونی سازش قرار دے رہی ہے۔
”بھگت سنگھ کے نظریہ اور میراث کی پاکستانی نصاب میں جگہ“
بھگت سنگھ اور ان کی میراث کو ہماری نصابی کتب میں شامل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ مزید برآں، ماہرین تعلیم کو بھی اپنے مقامی ہیروز کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے تحقیق کرنے اور مقامی بیانیہ تیار کرنے کی ذمہ داری اٹھانی چاہیے، چاہے ان کے عقائد کچھ بھی ہوں۔ حکومت کو یادگاری طور پر کم از کم ایک تاریخی نشان کا نام بھگت سنگھ کے نام پر رکھنے کی پہل کرنی چاہیے تاکہ آنے والی نسلوں کو مقامی انقلابی کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے۔
عدم اعتماد: کٹھ پتلی حکومت کیخلاف جعلی اپوزیشن کی ڈرامہ بازی
عوام اب ان میں سے کسی پر اعتماد نہیں کرینگے کیونکہ ان جعلی تبدیلیوں سے محنت کشوں اور عام لوگوں کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ بے روزگاری، مہنگائی، غربت اور سامراجی مالیاتی اداروں کی عوام دشمن پالیسیوں اور احکامات کا سلسلہ ختم نہیں ہو گا۔ ان سب ظلمتوں کے خلاف حکمرانوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے محنت کشوں کو اپنی لڑائی خود لڑنی ہو گی۔ تمام مالیاتی اداروں کے قرضوں کو ضبط کرنے، سامراجی معاشی پالیسیوں کو مسترد کرنے کیلئے ایک سوشلسٹ ریاست کے قیام کیلئے جدوجہد کو استوار کرنا ہو گا۔
حکمرانوں کی سیاسی قلابازیاں: عام عوام کیلئے کسی کے پاس کچھ نہیں!
عمران خان کا جانا ٹھہر گیا ہے، اس کی وجہ اس کی معاشی پالیسیوں کی شدید عدم مقبولیت اور اس کی انتہائی بری گورننس ہے۔ یہ ایک انتہائی نالائق حکومت ثابت ہوئی ہے۔ جس نے بلا چوں چرا ں آئی ایم ایف کے آگے گھٹنے ٹیکے، ان کی تمام شرائط مان لیں۔ مہنگائی کے باعث عوامی ردعمل پر واپسی کا سفر انہیں مزید مہنگا پڑ رہا ہے۔ ابھی بھی آئی ایم ایف ان پر ناراض ہے کہ عمران خان نے وعدہ کے باوجود عوام کے لئے کچھ ریلیف کا اعلان کیوں کیا ہے؟
ریاستی دھڑے بندیوں کے تصادم میں ’نیوٹرل‘ کی بازگشت
سول سپرمیسی، جمہوریت کی مضبوطی اور پارلیمان کی بالادستی جیسی خواہشات اور ’ووٹ کو عزت دو‘ جیسے نعروں کا اختتام ’ایمپائر کے نیوٹرل‘ ہونے کے اعلانات کی صورت برآمد ہو رہا ہے۔