دنیا


سامراجی بالا دستی کا تنازعہ

موجودہ عالمی صورتحال کا اہم خاصہ سامراجی تناؤ اور تنازعات کی بڑھتی ہوئی شدت ہے۔ جس سے بڑی طاقتوں کے مابین ٹکراؤ، علاقائی جنگوں اور تابع اور نیم نو آبادیاتی اقوام کے خلاف کے سامراجی جارحیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت (سپر پاور) امریکہ کی کمزوری، چین کا معاشی اور عسکری قوت کے طور پر ابھار اور2008ء کے بحران کے بعد قدر زائد کی حصہ داری پر عالمی تنازعہ ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا تھا۔

نسل انسان کو تباہی کے دہانے پر لے جاتا عالمی سرمایہ داری کا بحران

ہر گزرتے دن کے ساتھ بحران مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ 1930ء کی دہائی کے ‘گریٹ ڈپریشن’ کے بعد2008ء کا بحران سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا بحران ہے جو اب تک مسلسل جاری ہے۔ معیشت، سیاست، ماحولیات، صحت، نظریات اور عالمی غلبے کے بحرانات یکجا ہو کر ایک دوسرے کی شدت میں اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ بحران کی جڑ شرح منافع کی گراوٹ کا رجحان ہے۔ اس لیے سرمایہ داری کے پاس استحصال، جبر اور بربادی کو بڑھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ چنانچہ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود و قیود میں رہتے ہوئے اس بحران کا کوئی حل ممکن ہی نہیں ہے۔

’پنک ٹیکس‘ صنفی جبر کا ایک رخ

ایک خاتون،جو سرکاری ٹیچر ہیں،جب ان سے اس بارے میں بات کی گئی تو انکا کہنا تھا کہ وہ اس ٹیکس کا نام پہلی بار سن رہی ہیں،لیکن انہوں نے ہمیشہ اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ بچیوں کی اشیا ء بچوں کی نسبت مہنگی ہیں۔اس لیے وہ اپنی بیٹی کے لیے بھی ویسی اشیا ء لیتی ہیں جو وہ بیٹے کے لیے خریدتی ہیں،جن میں زیادہ تر کپڑے شرٹس،جینز، کھلونے اور دیگر بچوں کی اشیا ء شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو اس بارے میں مکمل آگاہی ہونی چاہیے۔اس پہ سیمینارز کا انعقاد کیا جانا چاہیے۔

کٹھنائیوں سے برسرپیکار عورت

پاکستان میں جاری سیاسی عدم استحکام اور معاشی ابتری،روپے کی قدر میں گراوٹ نے اس خطے کے گھرانوں کو مزید برباد کر دیا ہے۔ اس بربادی میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والی تعداد پھر خواتین کی ہے۔ خواتین پر گھر سنبھالنے کی ذمہ داری کے ساتھ بچوں کی دیکھ بھال،سودا سلف لانے سے لے کر کسی بیماری کی صورت میں ہسپتالوں میں مشکل حالات سے گزرنابھی معمول کی بات ہے۔پسماندگی اور رجعت میں خواتین کو اکیلے ہی بقا کی جنگ لڑنا پڑتی ہے۔ کہنے کو تو یہ باتیں آسان لگتی ہیں لیکن جب کسی عورت کو ان مشکلات سے گزرنا پڑھتا ہے تو باقی زندگی کی ہر ایک خواہش،ہر ایک خوشی چھن جاتی ہے۔

8 مارچ اور بلوچستان سے جموں کشمیر تک مزاحمتی تحریکوں میں خواتین کا کردار

2008کے مالیاتی بحران کے بعدسرمایہ داری کے گھر(وہ ممالک جنہوں نے سامراجیت کے ذریعے 200 سال تک تیسری دنیا کی دولت لوٹی)میں معاشی زوال پذیری کے باعث مزدوروں پر کام کے اوقات کار میں اضافے اور پینشن اصطلاحات جیسے حملے کیے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف وہاں خود ایسی حکومتیں بن رہی ہیں جن کے پاس الیکشن جیتنے کے لیے سوائے مہاجرین کے خلاف قانون سازی کے غیر انسانی نعروں کے کچھ نہیں ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ ان نعروں کی وجہ سے الیکشن جیت رہے ہیں۔جرمنی،برطانیہ،فرانس اور ارجنٹائن کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ امریکہ میں ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار کے لیے صاف ہوتا راستہ بھی اس متروکیت کو واضع کر رہا ہے۔

رام مندر سے ہندو مسلم محنت کشوں کو کوئی فائدہ نہیں: ریڈیکل سوشلسٹ

ریڈیکل سوشلسٹ ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کے افتتاح کے سیاسی طور پر خوفناک تماشے کی سخت مذمت کرتی ہے۔ 22 جنوری 2024 کو ’پران پراتشتھان‘کی تقریب آزادی کے بعد سے ایک سیکولر جمہوری نظام کو برقرار رکھنے کی کوششوں کو ایک اور عظیم علامتی دھچکا ہے۔ یہ واقعہ ہندو راشٹرا کے قیام کی طرف ہائیڈرا کی سربراہی والے سنگھ پریوار کے انتہائی منقسم فرقہ پرست فرقہ وارانہ ایجنڈے کی علامت ہے، اور ان کے جنگجو ہندوتوا نظریہ کو ملک کی غالب عام فہم کے طور پر ابھارنے کے مشن کی نمائندگی کرتا ہے۔ رام مندر کا افتتاح 2014میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ایک دہائی طویل آمرانہ ایمرجنسی جیسی حکمرانی کے پس منظر میں آیا ہے۔

رام مندر: مذہبی جنون کی ایک خطرناک علامت

ان تقریبات کا مقصد اور وزیراعظم کا مرکزی کردار ظاہری طور پر مذہبی ہے، لیکن کچھ سینئر پروہت اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ ا نہوں نے اس تقریب کا بائیکاٹ کیا، کیونکہ مودی تکنیکی طور پر ’پران پراتشتھا‘(روح کو مورتی کے اندر ڈالنے) کی رسم ادا کرنے کیلئے اہل نہیں تھے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ مودی ایک بار پھریہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ ان کے تحت ایک نیا بھارت وجود میں آچکا ہے، جس کی 1947میں پیدا ہونے والے بھارت سے لگ بھگ کوئی مشابہت نہیں ہے۔

خلیجی ملک تیل کا ہتھیار استعمال کریں: غزہ پر عرب مارکسی تنظیموں کا مشترکہ بیان

٭غزہ پر جنگ کو فوری طور پر روکا جائے۔
٭خوراک، ادویات اور ایندھن کی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ زخمیوں اور بیماروں کی نقل و حمل کے لیے سرحدیں کھولی جائیں۔
٭غزہ کا مسلسل محاصرہ فوری طور پر اٹھایا جائے۔
٭جارحیت میں شریک اور خطے کو خوفزدہ کرنے اور فلسطینی عوام کے محافظوں میں پیشگی شکست کی فضا پیدا کرنے کیلئے مداخلت پر تیار سامراجی قوتوں کا فوری انخلاء کیا جائے۔

فلسطین کیسے آزاد ہو گا؟

پی ایل او اب دو ریاستی فارمولے سے بھی پیچھے ہٹ کر ’اسرئیل کے اندر فلسطینیوں کے حقوق‘ کی پوزیشن تک جا پہنچی ہے۔ دوسری طرف حماس کی اسرائیل سے لڑائی جاری ہے لیکن یہ ایک بنیاد پرست تنظیم ہے جس کا مقصد ایک تھیوکریٹک فلسطین کا قیام ہے۔ جو ہمارے نزدیک انتہائی رجعتی خیال ہے۔ لہٰذا ہمارے اور اس کے درمیان ناقابل مصالحت فرق اور اختلافات حائل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حماس میں کچھ دھڑے ایسے بھی ہیں جو 1967ء کی جنگ سے پہلے کی سرحدی حدود کو تسلیم کرنے کو تیار ہیں جس سے اسرائیلی ریاست کے متوازی فلسطین کے قیام کا ناقابل حل تضاد پیدا ہوتا ہے۔ حماس غزہ میں اجرتوں میں اضافے اور کرپشن اور اقربا پروری کے خاتمے کے لیے محنت کشوں کے مظاہروں اور ہڑتالوں کو جبر کے ذریعے کچلتی بھی ہے۔ ایسے میں جب سیاسی میدان میں یہ رجعتی طاقتیں ہمارے مد مقابل ہوں‘ انقلابی متبادل کی تعمیر کوئی آسان کام نہیں ہے۔

امہ کے صیہونی اور شرعی اسرائیل

یہ درست ہے کہ پاکستان اور اسرائیل مذہب کی بنیاد پر قائم کئے گئے سامراجی منصوبے ہیں۔ تاہم اسرائیل غیر مقامی صیہونیوں کی جبری آبادکاری کے ذریعے مقامی فلسطینیوں کو اپنی آبائی زمینوں سے بے دخل کر کے قائم کیا جانے والا اس دنیا کااپنی نوعیت کا واحد منصوبہ ہے۔ بہر حال یہ ایک اکیڈمک بحث ہے، جس میں پڑے بغیر اس وقت مسلم ممالک کے حکمران طبقات اور بنیاد پرستی کی منافقت کو زیر بحث لانا مقصود ہے۔