Month: 2022 اپریل


کراچی یونیورسٹی واقعہ کے بعد بلوچ طلبہ زیر عتاب

کراچی خود کش حملے کے بعد ایسے نتائج کا برآمد ہونا اتنی اچنبے کی بات نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ بلوچستان میں ریاستی جبر اور قومی استحصال نے مسلسل شدت ہی اختیار کی ہے۔ وہاں کے وسائل کی لوٹ مار مسلسل جاری ہے اور اسی طرح سے مزاحمت بھی۔ وسائل کی اس عالمی لوٹ مار اور جغرافیائی خصوصیات نے اس خطے کو عالمی و علاقائی سامراجی طاقتوں کی پراکسی جنگوں کا میدان بنا دیا ہے۔

لاہور: پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل سے بلوچ طالبعلم گرفتار کر کے لاپتہ کر دیا گیا

آر ایس ایف کے مرکزی آرگنائزر اویس قرنی کے علاوہ دیگر طلبہ رہنماؤں نے بھی کہا ہے کہ کراچی واقعہ کے بعد ملک بھر میں بلوچ طلبا و طالبات زیر عتاب ہیں۔ طلبہ کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ طلبہ کی ہر قسم کی ہراسانی کی مذمت کرتے ہیں اور اس کے خلاف جدوجہد کرینگے۔

اسلام آباد میں حکومت ٹوٹتے ہی مظفر آباد سرکار کی کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں ’بظاہر‘جمہوری اور غیر جمہوری طریقوں سے حکومتیں تبدیل کئے جانے کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ ابتدائی حکومت کے قیام سے ہی حکومت پاکستان کی مداخلت اور مقامی اقتدار کو قابو میں رکھنے کیلئے اس طرح کی حکمت عملی ترتیب دی جاتی رہی ہے کہ مارشل لا کے ایک 10 سالہ دور کے علاوہ کوئی حکومت بھی اپنے آپ کو مکمل بااختیار قرار دے کر اپنی مدت مکمل نہیں کر سکی۔ کئی حکومتیں اپنی مدت پوری کرنے سے پہلے ہی گرا دی گئیں، یا پھر انہیں مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا جاتا رہا ہے۔

عمران حکومت کا خاتمہ : ایک مختلف نقطہ نظر

قبل از وقت انتخابات کا عمرانی مطالبہ اپنی جگہ مگر اس وقت ملکی حکمران طبقات کی اپنی ضرورت بنتی ہے کہ جنرل الیکشن جلدی ہو جائیں اس لیے غالب امکان ہے کہ جون کے مہینے یعنی بجٹ کے بعد الیکشن کی صورت بن سکتی ہے۔

نئے پاکستان سے پرانے پاکستان تک

طاقتور اداروں کی درمیانی پرتوں میں بھی عمران خان کی اچھی خاصی حمایت موجود ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ برسراقتدار دھڑا ابھی تک عمران خان کو نسبتاً فری ہینڈدینے پہ مجبور ہو رہا ہے۔ شاید وہ ایک بتدریج انداز میں عمران خان کو کارنر کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس سارے عمل میں بھی یہ اہم ہے کہ نئی حکومت لوگوں کو کس حد تک ریلیف دے پاتی ہے۔ جس کا ان پر شدید دباؤ ہے۔ لیکن ان کے پاس آپشن بہت ہی محدود ہیں۔ ایک طرف عمران خان ہے جو اپنی زبان درازی میں ہر حد تک جا رہا ہے اور ان کے ہر عوام دشمن اقدام کو بھرپور کیش کروائے گا۔ دوسری طرف آئی ایم ایف ہے۔ نیچے سے عوام کا بھی دباؤ ہے۔

ہنزہ میں وسائل پر جبری قبضہ بند کر دیا جائے: عوامی ورکرز پارٹی

زمینوں کے سرکاری نرخ مارکیٹ ریٹ سے زیادہ کئے جائیں اور کسی بھی پراجیکٹ کیلئے اراضی درکار ہو تو باقاعدہ پیشگی معاوضہ ادا کرنے کے بعد اسے اپنے استعمال میں لیا جائے۔ کسی بھی غیر مقامی کو زمین خریدنے کی اجازت نہ دی جائے۔

’طالبان کے ماتحت زندگی قبرستان جیسی ہے، افغان گھروں میں صرف موت آتی ہے‘

اگست 2021ء میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے کابل اور ملک کے دیگر حصوں میں تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ یہ تصور ہوا میں اڑ گیا ہے کہ طالبان نام نہاد امن اور سلامتی لائے ہیں۔ کابل اور ملک کے باقی حصوں میں کسی سے بھی بات کریں تو ہر کوئی یہ محسوس کر رہا ہے کہ نام نہاد امن معاہدہ دراصل افغان مصائب کو طول دینے اور ایک جنونی اور دہشت گرد گروہ کے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار کرنے کے سوا کچھ نہیں تھا تاکہ قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری رہے۔