پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ محنت کش طبقے، طلبہ اور دانشوروں کو ایک عوامی جمہوری تحریک کے جھنڈے تلے متحد کر کے اور ترقی کے ایک جامع عوام نواز ماڈل کیلئے جدوجہد کر کے ہی ہم اپنے لوگوں کے دکھوں کا کچھ مداوا کر سکتے ہیں۔

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ محنت کش طبقے، طلبہ اور دانشوروں کو ایک عوامی جمہوری تحریک کے جھنڈے تلے متحد کر کے اور ترقی کے ایک جامع عوام نواز ماڈل کیلئے جدوجہد کر کے ہی ہم اپنے لوگوں کے دکھوں کا کچھ مداوا کر سکتے ہیں۔
انہوں نے ایک ذہین قلم کار کی طرح صنفی مسائل کو بڑی مہارت سے سیاسی بحث کا حصہ بنایا اور ہم عصر رویوں کا دامن بھی سنبھالے رکھااور وہ بھی اس طرح کہ ان کی تحریروں کا ہر لفظ ایک نگینے کی طرح عبارت میں جڑا نظر آتا ہے۔
ذرائع کے حوالے سے انہوں نے دعویٰ کیا کہ خط اصلی نہیں تھا، کیونکہ اس میں کچھ مواد شامل کیا گیا تھا۔ جو الفاظ شامل کئے گئے وہ سفارتی رابطے کا حصہ نہیں تھے۔
اس نے اپنے آنسو صاف کیے اور نئی آنکھیں لیے سریلی آبشار کی طرف چل دی تاکہ آبشار کے حسن کو دیکھ سکے۔
ملکی سالمیت کی بقا، آزاد خارجہ پالیسی، غیر ملکی مداخلت مخالف نعرے بازی اور بھڑک بازی کا عقدہ گھاگ سمجھے جانیوالے دانشوروں کے مطابق محض ایک تقرری کے اختلاف تک چھوٹا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے وہ درحقیقت متضاد معاشی مفادات کے باعث چھینا جھپٹی میں ملکی معیشت، سیاست اور معاشرت تک کو برباد کر دینے کی ایک پیچیدہ اور مشکل لڑائی کی شکل میں سامنے آ رہا ہے، جس میں تقرری ایک انتہائی اہم کڑی ضرور ہو سکتی ہے، مگر کل لڑائی نہیں۔
آج یوکرائن پر روسی یلغار کو ایک مہینے سے زیادہ کا عرصہ گزر چکاہے او ر معاملہ کسی بہتر حل کی طرف جاتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ حسب معمول میڈیا اور سوشل میڈیا پر انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کا بازار گرم ہو چکا ہے اور متضاد قسم کی خبروں کا چلن عام ہو گیا ہے اور صورتحال یہ ہے کہ کسی کو بھی حتمی خبر کی خبر نہیں ہے۔ اس سارے قضیے میں صرف ایک بات ہی اچھی اور حتمی ہے اور وہ یہ ہے کہ یوکرائن کی عوام نے اپنی آزادی کی بقا کی ٹھان لی ہے۔ اس سلسلے میں ہم پاکستانی میڈیا کو مستثنیٰ کرتے ہیں کیونکہ ان کے تئیں عمران خان اور اپوزیشن کی لڑائی ہی دنیا کے سب سے بڑے اور اہم ا یشوز ہیں۔
’امریکہ کے حوالے سے تو سب نے کہا ہے کہ ہمارا آقا امریکہ ہے، عمران خان بھی امریکی (آشیرباد) کے تحت ہی اقتدار میں آئے ہیں اور اپوزیشن کی بھی اس حوالے سے ایسی ہی توقع ہے۔‘
ایک نئے موسم کا
آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کی تعیناتی کے سوال پر بظاہر جنرل قمر جاوید جاجوہ اور وزیر اعظم عمران خان کے مابین جو اختلافات سامنے آئے، یہ دراصل حکومت اور فوج کے مابین لڑائی تھی ہی نہیں۔ یہ فوج کے اندرونی اختلافات کا اظہار تھا۔ سیاسی و سماجی تضادات کا اظہار لازمی طور پر اس طرح نہیں ہوتا جس طرح آئینے میں عکس دکھائی دیتا ہے۔
دلیپ سنگھ کا یہ پیغام اس ہفتے دہلی میں یورپی یونین اور جرمن حکام کے تبصروں کا آئینہ دار ہے جس میں انہوں نے بھی کہا تھا کہ ہندوستان کو مغربی پابندیوں کا معاشی فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے اور نہ ہی جنگ کے دوران انہیں کمزور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔