Month: 2023 دسمبر


انتظامیہ پابندیاں ختم کرنے پر مجبور: بلوچ لانگ مارچ کا تونسہ میں تاریخ ساز استقبال

پیر کے روز ڈیرہ غازی خان پہنچنے پر بلوچ لانگ مارچ کے شرکاء کا والہانہ استقبال کیاگیا۔ تاہم پولیس نے کریک ڈاؤن کیا اور لاٹھی چارج کے بعد 20سے زائد شرکاء لانگ مارچ کو گرفتا کر لیا تھا۔ گرفتاریوں کے علاوہ انتظامیہ نے ڈیرہ غازی خان میں ٹرانسپورٹرزکو بھی لانگ مارچ کے شرکاء کو گاڑیاں فراہم نہ کرنے کا پابند کر رکھا تھا۔

برکت اللہ: لینن سے متاثر مولانا جو عمر بھر انگریز سامراج سے لڑتے رہے

وہ 8سال تک لندن میں ہی رہے اور جلد ہی وہ ایک سکالر اور سیاسی کارکن کے طورپر مشہور ہو گئے۔ انہیں یہ شہرت زیادہ تر برطانیہ کی ترکی کے حوالے سے پالیسیوں پر تنقید کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی۔ وہ اورئینٹل یونیورسٹی آف لیورپول میں عربی کے پروفیسر کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اس کے بعد امریکہ منتقل ہو گئے اور 6سال تک بطور استاد وہاں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ امریکہ میں بھی انہوں نے ہندوستانی کمیونٹیزاور امریکی عوام سے رابطے جاری رکھے اور برطانوی پالیسیوں کے حوالے سے اپنا موقف دیتے رہے۔

ہالی وڈ بمقابلہ بالی وڈ: ایک مارکسی تجزیہ

امریکی زوال بارے اگر کسی کو کوئی غلط فہمی ہے تو غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت سے یہ غلط فہمی دور ہو جانی چاہئے۔ چین اور روس کا کردار کہیں نظر نہیں آ رہا(ثقافتی شعبے میں بھی چین اور روس کہیں دکھائی نہیں دیتے)۔ سوشلسٹ نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو نئی سرد جنگ کا آغاز کوئی اچھی خبر ہے نہ امریکہ کا مسلسل سامراجی کردار۔ احسن انداز میں امریکی سامراج کا زوال نئی سرد جنگ سے نہیں،نئے سوشلسٹ انقلابات کی شکل میں ہی ہو سکے گا۔

سرمایہ داری کی ماحولیاتی تباہی: سانس لینا بھی مضرِ صحت ہے!

تیل اور گیس سے وابستہ اجارہ داریوں کو اشتراکی تحویل میں لئے بغیر فاسل فیولز کو ”فیز آؤٹ“ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح بینکنگ اور فنانس، توانائی کے حصول، صنعتی پیداوار اور سروسز کے کلیدی شعبوں کو اجتماعی ملکیت اور محنت کشوں کے کنٹرول میں دئیے بغیر ”گرین انرجی“ کے استعمال کو عام نہیں کیا جا سکتا۔ سمندر اور زراعت سے خوراک کے حصول اور پراسیسنگ کے دیوہیکل نظام کو بھی تبھی انسانی صحت اور ماحولیاتی تحفظ کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے جب اس میں سے گھر کے باورچی خانے کی طرح منافع کا عنصر نکال دیا جائے۔ لاکھوں کروڑوں گاڑیوں پر مبنی بے ہنگم نجی ٹرانسپورٹ کی جگہ آرام دہ اور سستی پبلک ٹرانسپورٹ لے گی تو شہر بھی اجلے، کھلے اور صاف دکھائی دیں گے۔ انہی سوشلسٹ بنیادوں پر انسان ایک مکمل بربادی سے بچ کے فطرت کو اپنے تابع کر سکتا ہے۔ اور سوشلزم کا انسان جب فطرت کو اپنے تابع کرے گا تو اسے بگاڑنے اور مسخ کرنے کی بجائے اور بھی زیادہ خوبصورت بنائے گا اور انسانیت ایسی فضا میں سانس لے سکے گی جس میں دم نہیں گھٹے گا بلکہ رگ و پے میں نئی زندگی دوڑ جائے گی۔

ریفرنس بیاد ڈاکٹر قیصر عباس: ویڈیو ریکارڈنگ

10 دسمبر کو جدوجہد کے جدوجہد کے مدیر اعلی ڈاکٹر قیصر عباس،جو 31 اکتوبر کو داغ مفارقت دے گئے، کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ’روز نامہ جدوجہد‘ کی جانب سے ایک آن لائن ریفرنس منعقد کیا گیا۔

سرکاری قرضوں میں بینکوں کی سرمایہ کاری نئی بلندی پر، شرح کل ڈپازٹس کا 92 فیصد

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے کمرشل بینک ذخائر، سرمایہ کاری اور پیش قدمی کے تازہ ترین اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ بینکوں نے ٹی بلز اور پاکستان انوسٹمنٹ بانڈز جیسی ڈیٹ سکیورٹیز میں سرمایہ کاری کے ذریعے حکومت کو 24.58ٹریلین روپے کا قرض دیا۔ یہ سرمایہ کاری نومبر کے آخر تک 26.79ٹریلین روپے کے کل بینک ڈپازٹس کا تقریباً92فیصد بنتی ہے۔

مغربی اور وسطی افریقہ میں 50 ملین افراد کو بھوک کا سامنا

اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کی رپورٹ کے مطابق اگلے سال مغربی اور وسطی افریقہ میں تقریباً50ملین افراد کے بھوک سے مرنے کا خدشہ ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیاہے کہ انسانی امداد کیلئے بین الاقوامی فنڈز شدید بھوک کی اس ریکارڈ سطح کے ساتھ نمٹنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔

جمہوری حقوق کی جدوجہد اور سوشلسٹ نقطہ نظر

سوشل میڈیا پہ اکثر بائیں بازو کے نظریات، حکمتِ عملی اور طریقہ کار پر تنقید سلسلہ لگا رہتا ہے۔اس میں مخالفین سے زیادہ بائیں بازو کے وہ کارکنان ہیں،جو بہت جلدی میں انقلاب کرنے کے خواہش مند تھے۔ انقلاب ہونہ سکا تو اب مایوسی کے عالم میں سوشل میڈیا پر مصنوعی تنقید کے ذریعے اپنا ذہنی تناؤ کم کرنے اور ضمیر کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ان میں بائیں بازو کے کچھ ایسے کارکنان بھی ہیں جو اپنی حکمتِ عملی اور طریقہ کار کو درست ثابت کرنے کے لیے باقی رجحانات کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ یہ سب فیس بک پوسٹوں کی حد تک ہی ہو رہا ہے، جو کوئی سنجیدہ پلیٹ فارم نہیں ہے۔

پاکستانی جنگوں کی متبادل تاریخ

تبصرے کے آخر میں دو معروضات کرنا چاہوں گا۔ اؤل، طارق رحمن نے ایک گروہ یا اوپری ٹولے کے حوالے سے بحث کو بہت آگے نہیں بڑھایا۔ کیا جنگ کے فیصلے بہرحال اوپر بیٹھے ٹولے ہی نہیں کرتے؟ جہاں عوام کی حمایت درکار ہو، حکمران کامیابی سے جنگی جنون پیدا کر لیتے ہیں۔ امریکہ نے جس طرح عراق پر انتہائی بلاجواز حملے کے لئے امریکی عوام کی حمایت حاصل کی، اس سے سبق ملتا ہے کہ فیصلہ ٹولے ہی کرتے ہیں، چاہے یہ فیصلے خفیہ ہوں یا عوام کو بے وقوف بنا کر۔ اس بابت کتاب میں تھوڑی تشنگی رہ جاتی ہے۔ دوم، اس میں شک نہیں کہ 1971ء کے دوران بھٹو نے جرنیلوں کے ساتھ مل کر جمہوریت کی پیٹھ میں خنجر گھونپا البتہ 1965ء کی جنگ میں ان پر، اس کتاب میں، ضرورت سے زیادہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے جس کا دستاویزی ثبوت بہت متاثر کن نہیں۔

شاک ڈاکٹرئن اور 16 دسمبر

کبھی کبھار، بین السطور اصل وجوہات کی بات بھی ہو جاتی۔ ’آزاد‘ میڈیا نے 16 دسمبر والے دن ’سقوط ڈھاکہ‘ کو شہ سرخیوں سے کیا، تاریخ سے ہی خارج کر دیا۔ برا ہو سوشل میڈیا کا جو تجارتی میڈیا کا پردہ چاک کردیتا۔ پھر 2014ء کو آرمی پبلک سکول پشاور کا سانحہ رونما ہو گیا۔ عین 16 دسمبر کے دن۔