Day: مارچ 18، 2024


حکمرانی کا بحران

گہرے بحران کے حالات میں بر سر اقتدار آنے والی بورژوا اور مفاہمت پسند سیاسی قیادتیں کٹوتیوں کی انتہائی جارحانہ پالیسیاں لاگو کرتی ہیں جن سے محنت کش عوام کا معیار زندگی ناقابل برداشت سطح تک گر جاتا ہے۔ اس سے روایتی بورژوا پارٹیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہیں، نئے رجحانات کی تشکیل اوران کے اقتدار کے تیر رفتار تجربے ہو رہے ہیں، حکومتیں گر رہی ہیں اور نئے سیاسی عوامل ابھر رہے ہیں۔

لینن کی میراث کے 100 سال

21 جنوری 1924ء کو ولادیمیر لینن کی وفات کے بعد سو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ کارل مارکس کی طرح لینن کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جن پر بہتان تراشی کے معاملے میں حکمران طبقات نے کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ نہ صرف قدامت پرست بلکہ لبرل بھی اسے ایک خونی آمر اور اقتدار کے بھوکے غاصب کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جبکہ بائیں بازو کے بیشتر اصلاح پسند‘ حکمران طبقات کے یہ الزامات دہرانے کے ساتھ ساتھ لینن کو ایک ایسے بے صبرے مہم جو کے طور پر پیش کرتے ہیں جس نے اکتوبر 1917ء میں ریاستی اقتدار تک اپنی پارٹی کی رہنمائی کر کے انقلابِ روس کے نامیاتی عمل کو سبوتاژ کر دیا۔ ایسے میں بالشویک انقلاب کو بھی مزدوروں اور کسان سپاہیوں کی ایک عوامی (لیکن منظم) سرکشی کی بجائے ایک ’کُو‘ (اقتدار پر قبضے کی گروہی سازش) کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر کبھی اکتوبر کی سرکشی میں بڑے پیمانے کی عوامی حمایت اور عمل دخل کو تسلیم بھی کیا جاتا ہے تو اسے ایک ’’قبل از وقت‘‘ (پری میچور) اقدام قرار دیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لینن کی پالیسیوں نے ہی آخر کار سٹالنزم کا راستہ ہموار کیا۔