Month: 2024 جولائی


بلوچستان: سریاب روڈ کا ریڈرز کلب

النوید شاپنگ مال بھی ایسا ہی ایک ڈھانچہ ہے،جو بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کی اس سڑک پر بنا ہوا ہے۔ امجد بلوچ نامی ایک نوجوان مجھے اس مال کے اندرپہلی منزل کے ایک کونے میں واقع ایک چھوٹی سی دکان کی طرف لے گیا۔ اندر روشنی کے داخل ہونے کی واحد جگہ آدھے بند بلائنڈز تھے۔ دیواروں پر قطاروں میں کتابوں سے بھری الماریاں نصب ہیں اور ایک خوبصورت کاؤنٹر ہے، جو کافی جگہ گھیرتا ہے۔

جب بھٹو کی پولیس نے مزدوروں پر گولی چلائی، کراچی 13 دن بند رہا

”ہماری تحریک صرف تنخواہ میں اضافے کے لئے نہیں تھی۔ہم مزدور کے لئے احترام چاہتے تھے۔ کراچی 1972 میں مزدوروں کا شہر تھا، یہ ایک الگ قسم کی طاقت تھی، یکجہتی تھی جس نے حکومت کو سننے پر مجبور کیا۔کراچی کو دوبارہ مزدوروں کا شہر بنانے کی ضرورت ہے۔“

انسانی حقوق کی کارکن سے جیل میں طالبان کا گینگ ریپ: ایمنسٹی انٹرنیشنل کا جیل میں ریپ واقعات کی تحقیق کا مطالبہ

ویڈیو مسلح افراد میں سے ہی ایک نے فون پر ریکارڈ کی۔ ویڈیو میں خاتون اپنے ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہے۔ ایک مرد اسے زور سے دھکیل رہا ہے۔ ایک موقع پر اسے کہا جاتا ہے کہ ’تم نے کئی سال امریکیوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھے ہیں، اب ہماری باری ہے۔

مڈل کلاس کو بے نظیر انکم سپورٹ پر اتنا غصہ کیوں آتا ہے؟

گذشتہ کچھ مہینوں سے فیس بک جیسے سوشل میڈیاپلیٹ فارمز پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے خلاف ایک پراپیگنڈہ جاری ہے۔ قابل افسوس یہ بات ہے کہ بعض اوقات بائیں بازو سے ہمدردی رکھنے والے لوگ بھی ایسی پوسٹوں کو شئیر کرتے ہیں جن میں یہ پیغام ہوتا ہے کہ اگر بے نظیر انکم سپورٹ جیسے پروگرام چلائے جائیں گے تو غریب لوگوں کو محنت کی بجائے حرام خودی کی عادت پڑ جائے گی، ملک ترقی نہیں کرے گا،بہتر ہے یہ پیسے ملک میں صنعتی ترقی پر لگائے جائیں۔

ناروے اور نظامِ طاغوت (پارٹ ٹُو)

پاکستان میں ناروے جیسا حقیقی طاغوتی نظام رائج کرنے کے لیئے مذھب کو آئین و قانون، پالیمینٹ و عدالتی نظام سے بے دخل کرنا ہوگا تاکہ قرونِ وُسطیٰ کے پادریوں اور چرچ کی ترجمانی کرنے والے پریچرز اور میڈیائی مداریوں کی زھریلی اور کھوکلی منطق سے نجات مل سکے اور یہ کام ۱۹۴۹ کی قراردادِ مقاصد کو بابائے قوم کی نافرمانی اور اقلیتوں کے خلاف اُس زمانے کے پریچرز اور اُنکے حواریوں کی گھنونی سازش تسلیم کرتےہوئے ۱۹۷۳ کے آئین سے بھی اسلام کو بے دخل کردینے سے شروع ہوسکے گا۔ 

خیبرپختونخوا: عوامی ایکشن کمیٹی قائم، بجلی تین روپے فی یونٹ حاصل کرنے کےلئے جدوجہد کا اعلان

اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت ہوگی ،جس میں وکلاء برادری ، سرکاری سکولوں کے اساتذہ ، تاجر برادری ، عوامی اور سماجی شخصیات کے ساتھ ساتھ ایک آل پارٹیز کانفرنس بلانے پر پر بھی اجلاس میں شریکِ تمام اراکین متفق تھے ۔عوامی ایکشن کمیٹی پختونخوا ایک مکمل سیاسی و۔ غیر جماتی تنظیم ہوگی اور پختونخوا کا ہر فرد اس کمیٹی کا ممبر ہوگا ۔

جموں کشمیر: ریاستی حکومت کیخلاف مقامی حکومتوں کا احتجاجی دھرنا

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں نئے مالی سال کے آغاز پریکم جولائی کو مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندگان نے دارالحکومت مظفرآباد کی طرف لانگ مارچ کیا اور اسمبلی سیکرٹریٹ کے سامنے احتجاجی دھرنا دے دیا۔ یہ احتجاجی دھرنا یکم جولائی سے مسلسل جاری ہے۔ بلدیاتی نمائندے شدید گرمی میں دن بھی اس احتجاجی دھرنے میں گزارتے ہیں اور راتیں بھی اسی دھرنے میں گزر رہی ہیں۔ یہ بلدیاتی نمائندے لوکل گورنمنٹ(مقامی حکومت) کیلئے مختص بجٹ منتخب نمائندوں کو تفویض کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ناروے اور نظامِ طاغوت (حصہ اول)

حال ہی میں سما چینل پر مکالمہ نامی پروگرام میں لکھاری خلیل اُلرحمن قمر اور ٹی وی پریچر ساحل عدیم کو عورتوں کو درپیش مسائل پر رائے زنی کے لیے بلایاگیا۔ میں پروگرام کے آغاز میں یہ سوچتا رہا کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ بات تو عورتوں کے حقوق پر ہورہی ہے،مگر اسٹوڈیو میں بطورِ مہمان صرف مرد حضرات کو ہی بلایا گیا ہے۔ بعد میں یہ بھی دیکھا کہ پبلک میں بیٹھی ایک باشعور و تعلیم یافتہ لڑکی کو تنقیدی تبصرہ اور کڑوے سوال کرنے پر اس طرح جھڑک کر حقارت سے گھورا گیا کہ جیسے کوئی جاہل و بدکردار جاگیردار اپنے زرخرید غلام کی تذلیل کر رہا ہو، مگر ازبا عبداللہ نامی اس بہادر لڑکی نے95 فیصد عورتوں کو جاہل کہنے والے دونوں ادھیڑ عمر مردوں کو نہایت ہی بردباری و معلمانہ انداز میں جواب دیتے ہوئے کھولتے تیل کے کڑھائے میں پھینک دیا۔

اردو ڈرامہ اور عصری مسائل

جب سماج کی بنیاد یعنی معاشی نظام متروک ہو جائیں،تو وہ محض معیشت میں ہی اپنا اظہار نہیں کرتے، بل کہ سماج کا ہر ایک ادارہ تعفن پھیلانے لگتا ہے۔ تاریخ کا دھارا گویا روک سا جاتا ہے۔ تہذیب و ثقافت زوال پذیر ہونا شروع ہو جاتیہیں۔ رشتوں کا تقدس اپنی اہمیت کھو دیتا ہے۔ سماج میں ایک بے گانگی جنم لیتی ہے، جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے لا تعلق کر دیتی ہے۔ یہ انسانوں کو مجبور کر دیتی ہے کہ ان کے پاس انفرادی بقا کے انتخاب کے علاوہ کوئی دوسرا رستہ نہیں بچتا، اور انفرادی کام یابی ہی سب سے بڑا مقصد حیات بن جاتی ہے۔ چاہے اس کی قیمت اپنوں کے خون سے ہی کیوں نا چکانی پڑے۔

’ماضی کے متاثرین تاحال بے یارومدد گار ہیں، نیا ملٹری آپریشن کوئی قبول نہیں کرے گا‘

ماضی کے آپریشنوں کی وجہ سے خیبر ایجنسی میں تیرہ اور دیگر علاقوں سے بے دخل کئے گئے لوگ آج بھی آئی ڈی پی کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بحالی کے نام پر ہر خاندان کو ایک ایک خیمہ اور کچھ راشن دے کر تباہ حال علاقوں میں جبری طور پر بھیجا جا رہا ہے۔ بنوں میں آج بھی لوگ اپنی ہی سرزمین پر مہاجرین کی زندگی گزار رہے ہیں۔ماضی کے تلخ تجربات کے ساتھ ساتھ پی ٹی ایم نے لوگوں میں شعور بیدار کر دیا ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ آپریشن ہوگا تو سب سے زیادہ نقصان ان کا ہوگا۔ جب تک گڈ اور بیڈ طالبان کی پالیسی ختم نہیں ہوتی، یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ بائیں بازو کو اس آپریشن کے خلاف کراچی، لاہور ، راولپنڈی جیسے شہروں میں احتجاج منظم کرکے آپریشن کی مخالفت کرنی چاہیے۔