پاکستان

جموں کشمیر: ریاستی حکومت کیخلاف مقامی حکومتوں کا احتجاجی دھرنا

حارث قدیر

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں نئے مالی سال کے آغاز پریکم جولائی کو مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندگان نے دارالحکومت مظفرآباد کی طرف لانگ مارچ کیا اور اسمبلی سیکرٹریٹ کے سامنے احتجاجی دھرنا دے دیا۔ یہ احتجاجی دھرنا یکم جولائی سے مسلسل جاری ہے۔ بلدیاتی نمائندے شدید گرمی میں دن بھی اس احتجاجی دھرنے میں گزارتے ہیں اور راتیں بھی اسی دھرنے میں گزر رہی ہیں۔ یہ بلدیاتی نمائندے لوکل گورنمنٹ(مقامی حکومت) کیلئے مختص بجٹ منتخب نمائندوں کو تفویض کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

چیئرمین ضلع کونسل پونچھ سردار جاوید شریف ایڈووکیٹ کے مطابق بلدیاتی نمائندے گزشتہ ایک سال سے زائد عرصہ سے احتجاج کر رہے ہیں۔ اس دوران حکومت نے متعدد وعدے کئے اور بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے کے حوالے سے کمیٹی کی جانب سے ایکٹ2024کا مسودہ بھی تیار کیا گیا، لیکن وہ مسودہ اسمبلی میں منظوری کیلئے پیش نہیں کیا جا رہا ہے۔

انکا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی انتخابات تو کروا دیئے گئے لیکن بلدیاتی اداروں کو بااختیار کرنے کے راستے میں ممبران اسمبلی اور حکومت رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ دوسرا بجٹ پیش کر دیا گیا ہے لیکن بلدیاتی اداروں کو مالی اور انتظامی اختیارات دینے کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کئے جا سکتے ہیں۔

انکا مزید کہنا تھا کہ لوکل گورنمنٹ کا گزشتہ مالی سال کا ترقیاتی بجٹ3ارب 17کروڑ تھا، جس میں سے بلدیاتی اداروں کو گرانٹ ان ایڈ کی صورت میں 82کروڑ روپے فراہم کئے گئے۔ رواں مالی سال کیلئے لوکل گورنمنٹ کا ترقیاتی بجٹ3ارب 70کروڑ روپے مختص کیا گیا ہے لیکن ایک روپیہ بھی بلدیاتی اداروں کیلئے نہیں رکھا گیا۔

انکا کہنا تھا کہ ہم نے 6ماہ کا وقت حکومت کو دیا، لیکن اس دوران چارٹر آف ڈیمانڈ پر کوئی عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ اس لئے احتجاج کے علاوہ ہمارے پاس کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔

مطالبات کیا ہیں؟

بلدیاتی نمائندگان نے پریس کانفرنس کے ذریعے چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا ہے۔ جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ لوکل گورنمنٹ کا 100فیصد ترقیاتی بجٹ بلدیاتی اداروں یعنی ضلع کونسل، کارپوریشن، ٹاؤن کمیٹیوں اور یونین کونسلوں کو آبادی کی بنیاد پر دیا جائے۔

لوکل گورنمنٹ ایکٹ1990کی سیکشن 9کے تحت تمام ضلعی افسران بالحاظ عہدہ ضلع کونسل کے ممبر ہیں، جس کا نوٹیفکیشن حکومت نے کرنا ہے اور اس کے بغیر ضلع کونسل نامکمل ہے۔ تین مرتبہ وعدہ کرنے کے باوجود یہ نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا۔ اس لئے یہ نوٹیفکیشن فوری جاری کیا جائے۔

بلدیاتی اداروں میں سٹاف، دفاتر اور سہولیات کی شدید کمی ہے، جس کی وجہ سے ادارے فعال نہیں ہو سکتے۔ اس لئے فوری ضروری اقدامات کئے جائیں۔

ریاست کے تمام اداروں، محکموں اور انتظامیہ کے زیریں سطح پر مشاورت، شراکت اور کردار کیلئے مقامی حکومت کو انتظامی طو رپر بااختیار بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔

ایکٹ2024کا مسودہ کمیٹی نے مشترکہ طور پر تیار کر کے حکومت کے حوالے کر دیا ہے۔ اس مسودے کو فوری منظور کیا جائے۔

مقامی حکومتوں کی فعالی میں رکاوٹیں

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں بلدیاتی اداروں یا مقامی حکومتوں کی راہ میں کثیر الجہتی رکاوٹیں موجود رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 1991ء کے بعد طویل عرصہ یہ ادارے غیر فعال رہے اور نومبر، دسمبر2022میں بالآخر سپریم کورٹ کے احکامات پر انتخابات کا انعقاد ہوا۔ اس دوران حکومتوں اور طاقتور اداروں نے آخری لمحے تک ان انتخابات کو موخر کرنے، یا ایک بار پھر طویل التوا کا شکار کرنے کی کوشش کی۔ تاہم حالات اور واقعات سمیت حکمران اشرافیہ کے باہم متضاد مفادات کے پیش نظر بلدیاتی انتخابات کی راہ ہموار ہو گئی۔

بلدیاتی اداروں کی فعالی میں سب سے بڑی رکاوٹ جہاں ممبران اسمبلی ہیں،وہیں اس خطہ پر نوآبادیاتی کنٹرول کو قائم رکھنے والے طاقتور حلقے بھی یہ نہیں چاہتے کہ انہیں زیادہ لوگوں کو اپنا مطیع اور فرمانبردار بنانے کیلئے کاوشیں کرنا پڑیں۔ کام مزید آسان کرنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی پارٹیوں کو بھی تقریباً غیر فعال کر دیا ہے اور محض ایم ایل ایز یعنی ممبران اسمبلی کی حکومتیں بنانے کی راہ ہموار کر رکھی ہے۔دوسرے لفظوں میں مختلف الیکٹ ایبلز ہیں، جن کے ذریعے اس خطے کو سیاسی اور مالیاتی حوالے سے چلانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ جس بھی پارٹی کی حکومت بنانی ہو اس میں ان الیکٹ ایبلز کو بھیج دیا جاتا ہے، بعد ازاں جب وہ حکومت گرانی ہو تو انہی ممبران اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل کروا کر دوسری حکومت قائم کر دی جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت رات کی تاریکی میں ڈیڑھ گھنٹے کے اندر تمام انتخابی عمل مکمل کر کے 53میں سے تمام حاضر48ممبران کے ووٹ سے قائم کر دی گئی۔ وزیراعظم منتخب ہونے کے دو روز بعد یہ طے پایا کہ یہ حکومت کس طرز کی ہوگی۔ اس کے بعد وزیراعظم کو منتخب کرنے والے افراد میں سے ہی ایک کو اپوزیشن لیڈر بھی بنا دیا گیا۔

اس طرح نام سے قانون ساز اسمبلی کہلانے والا یہ ادارہ درحقیقت نوآبادیاتی نظام کی رکھوالی کرنے والے تنخواہ داروں کے ایک مرکز سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس وفادارانہ سرگرمی کو قائم رکھنے کیلئے ان الیکٹ ایبلز یا ممبران اسمبلی کو ترقیاتی بجٹ، سرکاری ملازمتوں میں تقرریوں اور تبادلوں سمیت دیگر نوع کے مالی اور انتظامیہ اختیارات تفویض کئے جاتے ہیں۔ ان اختیارات کے ذریعے وہ نا صرف انتخاب پر آنے والے اخراجات اور مستقبل کے انتخاب کے اخراجات کا انتظام کرتے ہیں بلکہ بڑے پیمانے پر مال و دولت حاصل کرتے ہیں۔

المیہ البتہ یہ ہے کہ یہ تنخواہ، مراعات اور ترقیاتی بجٹ اس خطے کے مظلوم اور محکوم عوام کے خون پسینے کی کمائی سے جمع ہونے والے ٹیکسوں سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ اس رقم کو عوامی فلاح و بہبود پرخرچ کرنے یا نچلی سطح پر اقتدار کو منتقل کرنے کی راہ میں رکاوٹیں ڈال کر حلقوں میں ایسی کرشماتی شخصیات کو پروان چڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے، جنہیں لوگ تعمیر و ترقی کا ہیرو اور مسیحا سمجھیں۔ پھر انہیں ریاست اپنے مقاصد کیلئے،لوگوں کی ذہن سازی اور انہیں قابو میں رکھنے کیلئے استعمال کرتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی مسائل کو حل کرنے کی یہ انتظامی نوعیت کی منصوبہ بندی گزشتہ ایک سال کے دوران بری طرح سے پٹ بھی چکی ہے۔ اب ان زخموں پر مرحم لگانے کیلئے ایک نیا کھیل شروع کیا جا رہا ہے۔

یوں آخری تجزیے میں یہ قانون ساز اسمبلی اصل میں ایک بلدیاتی ادارے کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس کے پاس کوئی ریاستی یا قومی سطح کے مالی، انتظامی اور سیاسی اختیارات نہیں ہیں، البتہ لوکل گورنمنٹ کی سطح کے تمام تر اختیارات قانون ساز اسمبلی کے نمائندگان کو تفویض کئے گئے ہیں۔

ایسی صورت میں بلدیاتی اداروں کا قیام اس قانون ساز اسمبلی کے نمائندوں کو اپنے وجود کیلئے ہی خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی راہ میں ہمیشہ سے روڑے اٹکائے جاتے رہے ہیں۔ تقریباً مرکزی دھارے کی تمام جماعتیں اس پر متفق ہیں کہ بلدیاتی ادارے غیر فعال ہی رہنے چاہئیں۔

بلدیاتی نمائندوں کا کردار

طویل عرصہ بعد بلدیاتی انتخابات تو ہو گئے، تاہم منتخب ہونے والے بلدیاتی نمائندوں کو مالی، سیاسی اور انتظامی اختیارات دینے کی بجائے ریاستی مخبروں کے طورپر استعمال کرنے کی کوششیں ہی کی جاتی رہی ہیں۔ گزشتہ سال سے چلنے والی عوامی حقوق تحریک سمیت ریاستی بدانتظامیوں، ظلم اور جبر کے خلاف ہونے والے ہر نوع کے احتجاج کو روکنے، ضمنی انتخابات پر اثر انداز ہونے اور ریاست کے من پسند بیانیہ کی ترویج کیلئے بلدیاتی نمائندگان کو عسکری حکام کی جانب سے اپنے بریگیڈز اور سیکٹرز میں طلب کیا جانا ایک معمول رہا ہے۔

باغ کا ضمنی انتخاب ہو، سیز فائر لائن کے نزدیکی علاقوں میں ٹیلی کام اور انٹرنیٹ سروس کی فراہمی کیلئے احتجاج کو روکنا ہو، سیز فائر لائن پر موجود آبادیوں کی زمینوں اور مویشیوں پر بھارتی فوج کے قبضے اور فائرنگ سے شہریوں کی ہلاکتوں کے خلاف احتجاج ہو، یا پر عوامی حقوق کی بازیابی کیلئے چلنے والی تحریک ہو، ہر مرتبہ عسکری حکام اور انتظامیہ نے منتخب بلدیاتی نمائندوں کو طلب کیا۔ ان نمائندوں کو یہ احتجاج ختم کروانے، لوگوں کو احتجاج میں شرکت سے روکنے، یا پھر ان احتجاجوں کو غیر ملکی ایجنڈا قراردینے پر مجبور کیا۔ اس کے باوجود کچھ بلدیاتی نمائندوں نے ان ہدایات پر عملدرآمد سے واضح انکار بھی کیا اور احتجاجوں کا حصہ بھی بنے اور کئی مقامات پر تحریکوں کی قیادت بھی کی۔ تاہم ایک بڑی اکثریت ریاستی طاقت کے سامنے خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہوئی۔

اختیارات سے محروم بلدیاتی نمائندوں کو اب دہرے دباؤ کا سامنا ہے۔ ایک طرف وہ لوگوں سے کئے گئے ترقیاتی کام کے وعدے پورے کرنے سے قاصر ہیں۔ دوسری طرف ریاستی پالیسیوں کو شہریوں پر مسلط کرنے کا دباؤ ہے، لیکن اس کے ساتھ انتظامی سطح کی کسی بھی سرگرمی پر انہیں شراکت دار بنانے کیلئے آئینی طریقہ کار پرعملدرآمد ہی نہیں کیا جا سکا۔

بلدیاتی اداروں کی ضرورت اور اہمیت

نوآبادیاتی ڈھانچے کے غیر جمہوری طریقوں اور پابندیوں کے تحت کوئی بھی حکومتی ڈھانچہ مثالی نہیں ہو سکتا۔ تاہم سیاسی عمل کے چلتے رہنے سے نئے مواقع پیدا ہونے کے امکانات باقی رہتے ہیں۔ قانون ساز اسمبلی کو بلدیاتی ادارے کے تحت چلائے جانے سے کرپٹ سیاسی کلچر پروان چڑھتا ہے، جو نوآبادیاتی ڈھانچے کیلئے سب سے زیادہ موزوں رہتا ہے۔ تاہم یہ ضروری نہیں ہے کہ سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہونے سے کرپٹ سیاسی کلچر اور نوآبادیاتی ڈھانچہ فوری طورپر مسمار ہو جائے گا۔ یہ البتہ اس لئے ضروری ہے کہ اگر اختیارات 53کی بجائے 2500افراد پر تقسیم ہونگے، تو انہیں نہ صرف مکمل طو رپر قابو کرنا ممکن نہیں رہا، بلکہ وہاں مزاحمتی عناصر کی رسائی کے بھی محدود سہی لیکن امکانات ضرور موجود ہو جاتے ہیں۔

53ممبران پر مشتمل اسمبلی کا آئینی طو رپ متعین کام قانون سازی کرنا ہے۔ ان کو کنٹرول کرنے کیلئے مہاجرین کی 12نشستیں اور 8مخصوص نشستیں ہمیشہ ہی اسٹیبلشمنٹ کی جیب میں رہتی ہیں۔باقی رہنے والے 41ممبران کے انتخاب پر اثر انداز ہونا طاقتور ریاستی اداروں کیلئے کوئی زیادہ مسئلہ نہیں رہتا۔ لہٰذا وہ اپنی وفاداریاں گروی رکھنے کے بعد ہی انتخابی عمل کا حصہ بنتے ہیں۔ انہیں یہ وفاداریاں محض کسی بند کمرے میں گروی نہیں رکھنا پڑتیں بلکہ اپنی ہر تقریر، تحریر اور نیوز کانفرنس میں اس وفاداری کا اعلان کرنا پڑتا ہے۔ اس کے عوض محض ترقیاتی بجٹ اور لوکل گورنمنٹ کے اختیارات ہی ہوتے ہیں، جن کے ذریعے سے وہ اس وفاداری یا ضمیر فروشی کی قیمت وصول کرتے ہیں۔

یوں اگر ترقیاتی بجٹ اور لوکل گورنمنٹ کے اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہو جائیں، تو ان ممبران اسمبلی کی ایک بڑی اکثریت بھی مقامی حکومتوں کے انتخابات میں حصہ لیتی دکھائی دے گی۔ قانون ساز اسمبلی میں سیاسی قوتوں کے جانے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے اور اس خطے کے آئینی، سیاسی اور مالیاتی اختیارات کیلئے بڑے فورم سے آواز اٹھ سکتی ہے۔ قانون ساز اسمبلی کا کردارربڑ سٹیمپ سے بلند ہونے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔اس کے علاوہ نوآبادیاتی قوانین اور آئین کا مکمل خاتمہ اگر نہ بھی ہو تو ایسی شقوں کے خاتمے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے، جو غیر جمہوری اور سامراجی نوعیت کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سامراجی آقاء کسی طور بھی مقامی حکومتوں کو مکمل مطیع کرنے سے قبل بااختیار کرنے کے بارے میں سوچنے سے بھی گھبرا رہے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں انسانوں کو مطیع اور فرمانبردار بنانے کیلئے جتنے وسائل اور قابلیت درکار ہے، شاید مقتدرہ اس سے بھی عاری ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔