مزید پڑھیں...

پاکستان میں طلبہ سیاست کا عروج و زوال

منافع کی ہوس اور تعلیم کے کاروبار کے باعث طلبہ کو گھٹن زدہ کیفیت میں رکھا جا رہا ہے، جہاں سیاست تو دور سانس لینے کی آزادی بھی محال ہے۔ جہاں پلازوں میں مختلف انٹرنیشنل برانڈ کی دکانیں ہیں، انہی پلازوں میں ڈربہ نما کمروں کو یونیورسٹی اور کالج کا نام دیا جا رہا ہے۔ ریاست تعلیم کی فراہمی میں مکمل طور پر نااہل ہے، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سکولوں کے بعد تعلیمی اخراجات برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے تعلیم ترک کرنے پر مجبور ہے۔

طلبہ یونینز سے خوفزدہ کون؟

قوی امکانات ہیں اس ملک میں ناگزیر ضرورت بن جانے والی انقلابی تحریک کی پہلی چنگاری طلبہ تحریک سے ہی ابھرے گی۔ طلبہ کو اپنے بنیادی حقوق کی لڑائی کو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد سے جوڑنا ہوگا، جو تمام تر ذلتوں اور مسائل کی جڑ ہے۔اس عظیم مقصد میں انہیں محنت کشوں اور غریبوں کے لئے اپنے دل میں عاجزی اور احترام کے جذبات پیدا کرنا ہوں گے، ان سے سیکھنا ہو گا۔ اسی صورت میں وہ محنت کش طبقے کے ساتھ جڑت بنا کر تاریخ کا دھارا موڑ سکتے ہیں۔

لاہور: طلبہ اور محنت کشوں کی مشترکہ پریس کانفرنس

ہم طلبہ اور مزدور تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور سرکاری اداروں کی نجکاری کے خلاف متحد ہوکر آواز بلند کررہے ہیں۔ مہنگائی کم کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔ لاہور میں 29 نومبر ملکی تاریخ کا ایک نیا باب لکھنے کادن ثابت ہوگا۔ طلبہ اور مزدور لال جھنڈے لہراتے ہوئے اپنے مطالبات کو پیش کریں گے۔

پاکستان: 62 فیصد نوجوان طلبہ یونین کے حق میں ہیں!

یہ ایک نجی ادارے کا چند گھنٹوں کا سوشل میڈیا کا سروے ہے جس کا نتیجہ ہمارا سامنے واضح ہے اور یہی حقیقت ہے کہ پاکستان میں طلبہ کی اکثریت یونین سازی کے نہ صرف حق میں ہے بلکہ اب وہ یہ حق چھیننے کے لیے بھی تیار ہے جس کا اظہار 29 نومبر کو درجنوں شہروں میں ہونیوالے طلبہ یکجہتی مارچ میں ہوگا۔