تاریخ

جب ویسٹ انڈیز نے کرکٹ کو کلونیل ازم کے خلاف محاذ جنگ بنا دیا

طاہر کامران

ترجمہ: فاروق سلہریا

مائیکل ہولڈنگ جب سائٹ اسکرین سے کریز کی جانب بال کرانے کے لئے دوڑتے ہوئے جاتے تو یہ منظر دیدنی ہوتا۔ کسی منجھے ہوئے اتھلیٹ کی طرح…جو کہ وہ تھے… وہ ہوا کے جھونکے کی طرح ایمپائر کے پاس سے گزرتے ہوئے گیند نہیں راکٹ پھینکتے تھے۔ ان کے رن اَپ، بالنگ ایکشن اور فالو تھرو میں ایک ایسا ردم ہوتا کہ نوجوان بالرز ان کو دیکھ کر سیکھ سکتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ ستر اور اَسی کی دہائی میں وہ ویسٹ انڈیز کے سب سے تباہ کن بالر تھے۔ بہت سے بلے بازوں کے لئے تو وہ گویا ”موت کی سرگوشی“ تھے۔

ٹونی گریگ کی قیادت میں کھیلنے والی انگلینڈ کی ٹیم کو جس طرح مائیکل ہولڈنگ نے تہس نہس کیا، وہ کرکٹ کی تاریخ کا سنہرا باب ہے۔ اُوول میں انہوں نے 14 وکٹیں حاصل کیں جبکہ مائیکل ہولڈنگ کے باؤنسرز سے برائین کلوز کا پورا جسم نیل و نیل ہو گیا تھا۔

یاد رہے ویسٹ انڈیز کے مذکورہ دورہ انگلینڈ سے پہلے ٹونی گریگ نے بیان دیا تھا: ”میں برائین کلوز اور دیگر کھلاڑیوں کی مدد سے ویسٹ انڈیز والوں کی ناک سے لکیریں نکلوادوں گا“۔ اس بیان پر ویسٹ انڈیز والے تو سیخ پا ہوئے، ویسٹ انڈیز کی ٹیم کے لئے ”ناک سے لکیریں نکلوانے“ والے بیان سے ”نسل پرستی اور اپارتھائڈ“ کی بُو آتی تھی۔

ٹونی گریگ اور دیگر برطانوی کرکٹ شائقین یقینا اس بیان پر بہت پچھتائے ہوں گے۔ مائیکل ہولڈنگ، گورڈن گرینج اور ویوین رچرڈز نے انگلش ٹیم کا بھرکس نکا ل کر رکھ دیا۔ ٹونی گریگ کے بیان کا مزا پوری برطانوی ٹیم کو چکھایا گیا۔

چند دن پہلے نسلی امتیاز بارے بات کرتے ہوئے جمیکا سے تعلق رکھنے والے 66 سالہ لیجنڈ، مائیکل ہولڈنگ کی شخصیت کا ایک اور پہلو بھی سامنے آیا۔ یہ پہلو تھا ان کی تاریخ شناسی اور تاریخ میں سیاہ فام لوگوں کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئیں، ان کے بارے میں مائیکل ہولڈنگ کا تیز فہم شعور۔

ہوا یوں کہ وہ کرکٹ کمینٹیٹرز ناصر حسین اور ایبنی رین فورڈ برینٹ سے بات کر رہے تھے۔ نسلی امتیاز پر بات چل نکلی۔ اس موقع پر مائیکل ہولڈنگ نے جو کہا وہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا۔ بلیک لائیوز میٹر (Black Lives Matter) نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہے۔ مائیکل ہولڈنگ کا بیان اسی بات کی غمازی تھا۔ مائیکل ہولڈنگ کا بیان دانشوارانہ لحاظ سے ہی درست نہ تھا بلکہ ان کے بیان سے درد مندی بھی نمایاں تھی۔ کاش کرکٹرز کی موجودہ نسل بھی ایسی ہی حساسیت دکھا سکے اور اس نسل میں بھی اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کا وہی ہنر آجائے جس کا اظہار مائیکل ہولڈنگ نے کیا۔

نسلی امتیاز بارے بات کرتے ہوئے مائیکل ہولڈنگ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔ ان کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ یہ آنسو بلے بازوں کے لئے ”موت کی سرگوشی“ ثابت ہونے والے کرکٹر کا انسان دوست پہلو تھا۔ یہ وہ پہلو تھا جو لوگوں کو پہلے معلوم نہ تھا۔

اس سے بھی متاثر کن ان کی تاریخ فہمی تھی جس کے مطابق سیاہ فام لوگوں کے تاریخی کارناموں کا ذکر گول کر دیا گیا ہے۔ ان کے بیان نے کئی لوگوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ کی ثقافتی تخصیص بارے بات کرتے ہوئے نقطہ اٹھایا کہ کس طرح یسوع مسیح کے بال سنہرے، رنگ گورا اور آنکھیں نیلی بنا دی گئی ہیں اور کس طرح یہ شبیہہ پرفیکشن کی علامت بنا دی گئی ہے۔ حضرت عیسیٰ کی یہ شبیہہ یورپ میں بنائی گئی اور غیر سفید فام لوگوں کے ذہن میں بھی یہی شبیہہ ہے۔ اگر یہ شبیہہ درست ہے تو پھر غیر سفید فام (سیاہ فام) لوگ حضرت عیسیٰ سے متاثر نہیں ہو سکتے۔ محمد علی (باکسر) نے اسلام قبول کیا تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی۔

مائیکل ہولڈنگ کا یہ بیان کہ تاریخ کو محکوم اور مفتوح لوگوں کے نقطہئ نظر سے از سر نو لکھنے اور جانچنے کی ضرورت ہے اور ہر خاص و عام کو دعوت دیتا ہے کہ تاریخ اور تاریخ نویسی کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔

جب سے ٹرمپ کے امریکہ میں جارج فلوئڈ کی ہلاکت ہوئی ہے، تاریخ کا ایک بھیانک باب پھر سے آنکھوں کے سامنے منڈلانے لگا ہے۔

مائیکل ہولڈنگ کی والدہ نسلی امتیاز کا بد ترین شکار اس لئے بنیں کہ انہوں نے اپنے سے زیادہ کالے رنگ والے شخص سے شادی کی۔ اس واقعہ کا ذکرکرتے ہوئے مائیکل ہولڈنگ کی آنکھوں میں آنسوآ گئے کہ ان کی والدہ کو ”میرے جیسے لوگوں“ کے لئے طرح طرح کی باتیں سننا پڑیں۔ یہ ان کی والدہ جیسے لوگوں کی جدوجہد تھی کہ مائیکل ہولڈنگ نہ صرف ایک کرکٹ سٹار اور کمنٹیٹر بن سکے بلکہ ان میں فہم و فراست، دانش اور حساسیت بھی پائی جاتی ہے۔

مائیکل ہولڈنگ محمد علی کے نقش قدم پر چلنے والے کھیلوں کی دنیا کا وہ ستارہ بن کر ابھرے ہیں جوایسی انسانی اقدار کی بات کرتا ہے جو رنگ، نسل اور طبقے سے ماورا ہیں۔

کرکٹ کے ذریعے سیاست کی کیا اہمیت ہے، اس کا اندازہ مجھے دستاویزی فلم ”فائر اِن بیبلان“ (Fire In Babylon) دیکھ کر ہوا۔ 2010ء میں بننے والی اس برطانوی دستاویزی فلم کا موضوع ستر اور اَسی کی دہائی میں کھیلنے والی ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم ہے۔ اہم بات: اس فلم کا سیاق و سباق یہ تھا کہ ویسٹ انڈیز کی اس ٹیم کو بعض اوقات سفید فام کھلاڑیوں کی جانب سے نسل پرستانہ روئیے کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

میں کیمبرج یونیورسٹی کے اپنے عزیز دوست ڈاکٹر کیون گرین بیک کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے یہ دستاویزی فلم دیکھنے کا مشورہ دیا۔ اس دستاویزی فلم میں مائیکل ہولڈنگ بھی ویوین رچرڈز کے ہمراہ دکھائی دیتے ہیں۔

اس دستاویزی فلم میں تفصیل کے ساتھ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ویسٹ انڈیز کے کھلاڑی سابق سفید فام آقاؤں کے ہاتھوں تضحیک کا نشانہ بنے۔ دونوں اس دستاویزی فلم میں بتاتے ہیں کہ 1975ء کے دورہئ آسٹریلیا کے دوران جس طرح آسٹریلیائی کھلاڑیوں اور اسٹیڈیم میں موجود شائقین نے ان کے ساتھ سلوک کیا، اس کی وجہ سے وہ دورہ جہنم کی سیر سے کم نہیں تھا۔ جملے کسے گئے۔ پتھر پھینکے گئے۔ آسٹریلیائی شائقینِ کرکٹ نے مائیکل ہولڈنگ کو شدید مایوس کیا۔ اس تجربے کی وجہ سے مائیکل ہولڈنگ اور ان کے ساتھیوں کا خیال تھا کہ کرکٹ کو جنٹل مین کا کھیل کہنا ہی زیادتی ہے۔

یہ تھا وہ پس منظر جس کے بعد کرکٹ کا میدان کلونیل سوچ اور سفید فام برتری کے خلاف محاذ جنگ بن گیا۔ ان تفصیلات کے بعد ایلکس ہیلے کی ’دی روٹس‘ ہارپر لی کی ’ٹو کل اے موکنگ برڈ‘ سی ایل آر جیمز کی ’بلیک جیکوبنز‘ اور چیما مندا نگوزی آدیچے کی ’ہالف اے یلو سن‘ ایسی کلاسیک کتابیں یاد آ جاتی ہیں کیونکہ حالات وہی تھے جو ان کتابوں میں بیان کئے گئے تھے۔

”فائر اِن بیبلان“ میں ہی میں نے پہلی بار غور کیا کہ ویوین رچرڈز کلائی پر ترنگا رِسٹ بینڈ پہنتے تھے۔ اس کا سبز رنگ اس بات کی علامت تھا کہ ویسٹ انڈیز کبھی مقامی لوگوں کی ملکیت تھا، سنہری رنگ اس بات کی غمازی کرتا تھا کہ ان کے ملک کی دولت مغرب لوٹ کر لے گیا ہے اور سرخ رنگ اس خون خرابے کی علامت تھا جو مغرب نے کیا۔

خود کو سفید فام کھلاڑیوں سے بہتر ثابت کرنا ویسٹ انڈیز کے ان عظیم کھلاڑیوں کے لئے ایک سیاسی جدوجہد تھی۔ اسی جذبے سے سرشار ہو کر ویسٹ انڈیز نے 1979ء میں آسٹریلیا کا دورہ کیا اور غضب ناک ہو کر یہ سیریز کھیلی۔ ویسٹ انڈیز کے فاسٹ بالرز نے ڈینس للی اور جیف تھامسن کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ اُ ن دنوں اکثر کرکٹرز ویسٹ انڈیز کا دورہ کرنے سے محض اس لئے گھبراتے تھے کہ مائیکل ہولڈنگ اور انڈی رابرٹس کا سامنا کرنا پڑے گا۔

لگ بھگ پندرہ سال تک ہولڈنگ اور ان کی ٹیم ناقابل شکست رہے۔ اس شاندار کارکردگی کے پیچھے یہ جذبہ بھی تھا کہ ہم نے اپنے سابق آقاؤں سے بدلہ لینا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ تاریخ کا گہرا شعور رکھتے تھے جس کی وجہ سے وہ پوری دنیا کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے۔ مائیکل ہولڈنگ اس ٹیم کے تاج کا ہیرا تھے۔

Tahir Kamran
+ posts

طاہر کامران بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی، لاہور میں لبرل آرٹس کی فیکلٹی میں پروفیسر ہیں۔ تاریخ پر نصف درجن کتابوں کے علاوہ وہ کئی تحقیقی مقالات شائع کر چکے ہیں۔