تاریخ

معلم صاحب صبوری الوداع!

فاروق سلہریا

کابل میں گذشتہ پیر کی شام علم، انقلابی سوچ اور تعلیمی حقوق کی ایک اہم علامت، ایک روشن شمع ٹریفک حادثے میں بجھ گئی۔

غلام محمد نوری، جنہیں ان کے ہزاروں طالب علم اور دوست تکریم کے ساتھ معلم صاحب صبوری کہہ کر پکارتے تھے، کی وفات نے افغانستان کو اور بھی غمناک کر دیا۔ اپنی بھرپور اور قابل رشک مگر خطرات اور مشکلات سے بھر پور زندگی میں انہوں نے ہزاروں لوگوں کے دلوں کو چھوا۔ کتنے ہی لوگ تھے جن کی زندگی بدلنے میں انہوں نے ایک اہم کردار ادا کیا۔

1955ء میں قندوز کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہونے والے غلام محمد نوری ستر کی دہائی میں ترقی پسند خیالات سے متاثر ہوئے۔ ترقی پسند تحریک سے انہوں نے یہ اہم ترین سبق سیکھا اور پھر زندگی اس کے لئے وقف کر دی کہ خواتین کی تعلیم کے بغیر نہ تو افغانستان ترقی کر سکتا ہے نہ معاشرے میں کوئی بہتری آ سکتی ہے۔

روسی فوجوں کی افغانستان آمد کے بعد وہ اپنے خاندان سمیت پاکستان میں پناہ گزین ہو گئے۔ بطور پناہ گزین انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ باجوڑ میں دو سکول قائم کئے۔ ایک لڑکوں کے لئے، ایک لڑکیوں کے لئے۔ لڑکیوں کا سکول اپنے گھر میں شروع کیا۔

پناہ گزین کیمپوں میں معمول کے سکول تو تھے نہیں۔ صرف مدرسے تھے جنہیں اسٹبلیشمنٹ کے منظور نظر جہادی کمانڈر چلاتے تھے۔ لڑکیوں کی تعلیم کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ افغان ترقی پسندوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ زیر زمین سکول چلانے شروع کئے۔ انہی سکولوں میں ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے غلام محمد نوری رفتہ رفتہ معلم صاحب صبوری کے نام سے معروف ہو گئے۔

جب طالبان کا خوفناک عورت دشمن راج قائم ہوا تو معلم صاحب صبوری کابل چلے گئے تا کہ وہاں لڑکیوں کی تعلیم کے لئے قائم زیر زمین سکولوں کو چلانے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ یہ انتہائی خطرناک کام تھا۔ روزانہ کی بنیاد پر جان خطرے میں تھی لیکن انہوں نے یہ کردار بھی ادا کیا۔ گیارہ ستمبر کے بعد وہ محکمہ تعلیم کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔ اب تو پورے افغانستان کا نظام تعلیم ایک طرح سے ان کی ذمہ داری بن گیا اور انہوں نے بھی جی جان سے یہ کام کیا۔ ملک کے کونے کونے میں سکولوں کی انسپکشن کے لئے گئے۔

جوں جوں افغانستان کے حالات خراب ہوتے گئے توں توں ان کا کام بھی خطرناک ہوتا گیا مگر وہ اپنے فرائض ادا کرنے کے لئے ہیلی کاپٹر پر جانا پڑتا تو ہیلی کاپٹر پر جاتے۔ بس کا سفر کرنا پڑتا تو بس میں۔ کئی بار تو میلوں پیدل بھی چلے۔

ملک کے کونے کونے میں لوگوں کو معلوم تھا کہ معلم صاحب صبوری سکولوں کے معائنے کے لئے آتے ہیں اور سکول کے کام میں کسی قسم کی نالائقی برداشت نہیں کرتے۔ تعلیم ان کے لئے صرف لٹریسی کا نام نہیں تھا۔ تعلیم سے ان کی مراد دو چیزیں تھیں۔ شعور اور صلاحیت کا حصول (ایمپاورمنٹ)۔ اس کام میں بھی لڑکیوں کی تعلیم کو اولیت حاصل تھی۔

ان سے جب بھی ملاقات ہوئی میں نے ان سے افغانستان کے حالات پر بات کی۔ ان کا ایک ہی جواب ہوتا: جب تک تعلیم عام نہیں ہوتی، پر امن افغانستان کا قیام آسان نہیں۔ بظاہر یہ بات ایک نعرہ معلوم ہوتی مگر وہ اپنے ذاتی تجربات کو بنیاد بنا کر دلیل دیتے تو انسان ان کی بات کا قائل ہو جاتا۔

چالیس سال لمبی اس جدوجہد میں انہوں نے کتنی ہی زندگیاں بدلنے میں مدد دی۔ ان کے شاگرد آج افغانستان میں اہم خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ بعض خواتین اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔

یہ لمبی جدوجہد اس لئے بھی ممکن ہو سکی کہ ان میں زبردست انفرادی خوبیاں تھیں۔ بے شمار حوصلہ، بہادری، ایثار اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر وقت دوسروں کی مدد کے لئے تیار رہتے۔ ان کی وفات پر ان کے قریبی دوست ڈاکٹر رسولی نے معلم صبوری کو ”انسان مبارز و با افتخار کشور“ (فائٹر اور ملک کا افتخار) قرار دیا۔ شائد اس سے بہتر اور مختصر تعارف ممکن نہیں۔

تعلیم اگر مشن تھا تو آرچی، ان کا گاؤں، ان کا عشق تھا۔ گاؤں کا ذکر ”میرا آرچی“ کہہ کر کرتے۔ چند سال پہلے اپنی زمین کا عطیہ دے کر سکول بنوایا۔ سکول چل پڑا تو احساس ہوا کہ بچوں کے پاس کھیلنے کے لئے میدان بھی ہونا چاہئے۔ اپنی مزید زمین سکول کو عطیہ کر دی۔

ستم ظریفی ان کی وفات کے بعد مقامی طالبان بھی تعزیت کے لئے آئے اور معلم صبوری کو یہ کہہ کہ خراج عقیدت پیش کیا کہ ہم نے معلم صبوری کی تعلیمی خدمات بارے بہت سنا ہے، ہم اسی لئے ان کو خراج عقیدت پیش کرنے آئے ہیں۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔