عمار علی جان
جس طرح کی نفرت اہل تشیع کے خلاف پھیلائی جا رہی ہے اس پر ہم سب کو فکر مند ہونا چاہئے۔ لوگوں کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے کے لئے توہین مذہب کا ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔
یاد رکھیں یہ پاگل پن یہیں تک نہیں رکے گا۔ وہ وقت دور نہیں جب اہل سنت کے ذیلی فرقوں…بریلوی، دیوبندی، سلفی…میں پائی جانے والی پوشیدہ مخاصمت کا سر عام اظہار ہونے لگے گا۔ پاکستان کا تصور تو یہ تھا کہ یہ ”اسلام کی تجربہ گاہ ہو گی“ مگرآج یہ ملک مسلمانوں کے اندر سے کافر ڈھونڈنے والی ایک مشین بن چکا ہے۔
کمزور مذہبی برادریوں کے خلاف ایک ایسے وقت میں تشدد بڑھ رہا ہے کہ جب ریاست نہ تو روزگار دے پا رہی ہے نہ مناسب تعلیم اور صحت کی سہولت، حتیٰ کہ شہریوں کے پاس پینے کا صاف پانی تک نہیں پہنچ رہا۔
جب حکمران طبقے عوام کے مطالبات پورے نہیں کر پاتے تو اکثریت کو اقلیت کے خلاف بھڑکاتے ہیں، یہ اشارہ دیا جاتا ہے کہ اکثریت پر قانون ہاتھ نہیں ڈالے گا۔ کراچی میں یہی کچھ دیکھنے کو ملا جہاں ایک شیعہ مخالف مظاہرے میں لوگ فرقہ وارانہ نعرے لگا رہے تھے اور کوئی پوچھ گچھ کرنے والا نہیں۔ یہ سمجھنے کے لئے کہ یہ فرقہ وارانہ نفرت ہمارے سماج کو توڑ پھوڑ دے گی، اس کے لئے ہمیں ایک دوسرے کے مذہبی نقطہ نظر سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔
اس خطرناک کھیل میں عام لوگوں کی جانیں جائیں گی۔ جب لوگ سایوں سے لڑ رہے ہوں گے، ریاست شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی بنیادی ذمہ داری سے ہاتھ اٹھا لے گی۔
اہل تشیع سے اظہار یکجہتی کا مطلب ہے کہ ہم نفرت اور تقسیم کی سیاست کو رد کرتے ہیں۔ تقسیم در تقسیم لوگوں کو بے وقوف بنانا آسان ہوتا ہے۔ اگر لوگ متحد ہوں تو پھر اصل مسائل پر بات ہوتی ہے۔ وہ مسائل جو ہر شہری کے لئے اہم ہیں: شہری آزادیاں، صحت، تعلیم، جینڈر اور ماحولیاتی انصاف۔ وقت ہے کہ ہم ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں اور نفرت کے سوداگروں کو شکست دیں۔