فارق طارق
گذشتہ روز وہ ہو گیا جو تحریک انصاف حکومت نے سوچا بھی نہ ہو گا۔ کل تک نواز شریف کی تقریر روکنے کی تیاریاں جاری تھیں، دھمکیاں دی جا رہی تھیں، وزرا کی قطار لگی ہوئی تھی یہ بتانے کے لئے کہ ایک ’مفرور اور اشتہاری‘ کو تقریر کی اجازت نہیں ہو گی، ادارے حرکت میں آئیں گے، پیمرا یہ ہونے نہیں دے گا۔
پھر حالات نے پلٹا کھایا۔ عمران خان نے جو سٹروک کھیلا وہ اب ان کے گلی کی ہڈی بنتا نظر آ رہا ہے۔ متلون مزاج اور غیر مستحکم عمران خان نے سوچا ہو گا کہ میاں نواز شریف بارے عدالتی فیصلوں نے اسے ایسا رہنمابنا دیا ہو گا جس کی بات پر لوگ یقین نہیں کریں گے۔ اسی لئے اس نے میاں نواز شریف کی تقریر کی اجازت یہ کہہ کر دی کہ عوام کے سامنے اس کے جھوٹ بے نقاب ہوں گے…مگر میاں نواز شریف کی 53 منٹ کی تقریر کافی سخت تھی۔
وہ اعتماد سے بھرپور کھل کر اپنے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانئے کی وضاحت کرتے نظر آئے۔ جب انہوں نے اپنی لکھی تقریر سے ہٹ کر یہ کہا کہ ’ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں۔ اس کو لانے والوں سے ہے‘ تو یہ اسی وقت تمام اینکرز اور صحافیوں کی ٹویٹ کا موضوع بن گیا۔
ان کی تقریر طنز کے تیروں سے بھرپور تھی: ”سی پیک کے ساتھ پشاور کی بی آر ٹی جیسا سلوک ہو رہا ہے“ کہہ کر انہوں نے پشاور میں بسوں کو آگ لگنے، اس کے بار بار بند ہونے اور بجٹ میں غیر معمولی بار بار اضافے کو سی پیک منصوبے کا مستقبل قرار دیا۔
ایک اور جملہ جو میڈیا کی توجہ کا فوری مرکز بن گیا وہ تھا: ”پہلے ریاست کے اندر ریاست تھی اور اب تو ریاست سے بالاتر ایک ریاست ہے“۔
گو یوسف رضا گیلانی کے ”ریاست کے اندر ریاست“اور میاں نواز شریف کے”ریاست سے بالاتر ریاست“ دونوں طرح کے بیانئے میں کوئی بنیادی فرق نہیں۔ صرف لفاظی ہے مگر آج یہ لفاظی ملک میں چلنے والی موجودہ سیاسی صورتحال کا درست طور پر احاطہ کرتی ہے۔ اسی لئے یہ فقرے بھی اب دھرائے جاتے رہیں گے۔
اب تک کی خبروں کے مطابق پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 2008ء کے انتخابات سے قبل آل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ بنائی گئی تھی جس میں عمران خان بھی شامل تھے۔اس اتحاد کے تحت 2008ء کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا گیا تھا۔ اب اسی نام کو تقریباً اختیار کر لیا گیا ہے۔
اہم بات یہ تھی کہ آل پارٹیز کانفرنس کے شرکاء نے وزیراعظم عمران خان سے فوری مستعفی ہونے کا مطالبہ بار بار دہرایا۔
جو کچھ کہا گیا اس کے مطابق اکتوبر سے تحریک کا آغاز ہو گا، مطالبہ کیا جائے گا کہ جنوری 2021ء میں آزادنہ انتخابات کروائے جائیں بصورت دیگر اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ ہوگا، تحریک عدم اعتماد اور اسمبلیوں سے استعفوں کے آپشن اس کے علاوہ ہیں۔
اب یہ باضابطہ کہا گیا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس نے حکومت کے خلاف تحریک کا اعلان کرتے ہوئے پہلے مرحلے میں مشترکہ جلسوں، دوسرے مرحلے میں دسمبر سے مظاہروں اور پھر جنوری 2021ء میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ کہا گیا کہ پاکستانی شہریوں کو مسنگ پرسنز بنانے کا سلسلہ بند کیا جائے اور پہلے سے مسنگ پرسنز کو عدلیہ کے سامنے پیش کیا جائے۔
26 نکاتی پروگرام اگرچہ سرمایہ داری بنیاد پر ایک اصلاحی پروگرام ہے مگر ابھی کوئی ٹھوس معاشی متبادل پروگرام پیش نہیں کیا گیا اس کے باوجود عمران خان کی حکومت کو دو سالوں کے دوران پہلا اہم سیاسی چیلنج درپیش ہے جسے وہ نظر انداز نہیں کر سکیں گے۔
آج کم از کم یہ ڈر ٹوٹ گیا کہ میڈیا اب مکمل طور پر ان دیکھے ہاتھ چلائیں گے۔ بہت سے دیگر عنصر بھی اس عمل میں مداخلت کر کے ترجیحات اور حکمت عملی میں تبدیلی لانے کا باعث بنتے ہیں۔
11 بڑی سرمایہ دار اور مذہبی سیاسی جماعتوں کا ایک پلیٹ فارم پر آنا، نیا اتحادبنانا، جلسے جلوسوں، مظاہروں، ہڑتالوں، دھرنوں اور لانگ مارچ کی باتیں اہم سیاسی پیش رفت ہیں۔ حکومت اس کو جتنا بھی نظر انداز کرنے اور آنکھیں چرانے کی اداکاری کرے، انہیں اس کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔
غلط طور پر کرونا کے کم کرنے کا کریڈٹ لینے والی تحریک انصاف حکومت پچھلے چند ہفتوں میں کچھ زیادہ ہی اعتماد سے ایسے منصوبوں پر عمل کرنے پر جلدی دکھا رہی تھی کہ جیسے اب سب اچھا ہے، اسے کسی موثر اپوزیشن کا سامنا نہیں۔
مشترکہ پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل نہ ہونے کے باوجود بل پاس ہونے کے بعد ان کے غرور میں اور اضافہ ہوا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی جانب سے میاں نواز شریف کیخلاف فیصلوں نے ان کو اور شیر کر دیا۔
اب تیزی سے نجکاری کی جا رہی تھی۔ قبضہ مافیا کے خاتمہ کے نام پر جڑانوالہ کے کسانوں سے 105 مربع زمین خالی کرانے کی کوشش کی گئی۔ ایک عورت دشمن بیانیہ رکھنے والے پولیس افسر کی مکمل حمائت کی گئی۔
اسی لئے تو کہہ دیا کہ نواز شریف کی تقریر ہونے دی جائے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ کہ وہ اپنا ایک موثر بیانیہ عوام میں پیش کر سکیں گے۔
کم از کم اب یہ بات تو عام ہو جائے گی کہ اسٹیبلشمنٹ سویلین معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ یوں پشتون تحفظ موومنٹ جس نے کل وانا میں ایک انتہائی کامیاب جلسہ منعقد کیا، کے سیاسی بیانئے کو مین سٹریم سیاسی پارٹیوں نے بھی اختیار کر لیا ہے۔
مگر اس کا کیا جائے مسلم لیگ ن آج بھی نج کاری کی حامی ہے، نیو لبرل ایجنڈا کا مناسب اطلاق چاہتی ہے اور بدقسمتی سے تنیوں بڑی پارٹیوں کی معاشی پالیسیاں تقریبا ایک جیسی ہیں۔ غیر ملکی قرضہ جات، مارکیٹ کی قیادت میں چلنے والی معیشت، نج کاری اور نیو لبرل ایجنڈ ے کا اطلاق؛ اس پر ان تینوں کا اتفاق ہے۔
عمران خان حکومت آج مکمل طور پر عوام سے کٹ چکی ہے مگر ایک موثر مہم کے لئے ایک موثر اقتصادی متبادل پروگرام جو سرمایہ داری نظام کے رسے توڑتے ہوئے محنت کش عوام کو انقلابی اصلاحات سے متعارف کرائے، اس کی اشد ضرورت ہے۔ ایسا ان سرمایہ دار پارٹیوں کے بس کی بات نہیں۔
یہ سرمایہ داری نظام کسی صورت بھی محنت کش عوام کے مسائل حل نہیں کر سکتا، اسے عمران خان چلائے یا نواز شریف، یا آصف زرداری ودیگر صاحبان؛ یہ ایک ناکام سسٹم ہے، اس کے خلاف جدوجہد کی ضرورت ہے۔
یہ ایک ناکام ترین حکومت ہے، درست ہے مگر اپوزیشن ایسی نالائق ثابت ہوئی ہے کہ اکثریت کے باوجود سینٹ چیئرمین کا انتخاب ہار جاتی ہے، جوائنٹ سیشن میں اکثریت کے باوجود ہار جاتی ہے اور یہ اپنے بکنے والے ارکان کے خلاف ایکشن لینے کو تیار نہیں۔ اپنی اندرونی صفوں کو صاف کئے بغیر تحریکیں ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھتیں۔
آج ایک نئی عوامی انقلابی سیاست کی ضرورت ہے جو یہ سرمایہ دار اور مذہبی رہنما کرنے سے قاصر ہیں۔ مزدور طبقے کو اپنی نئی انقلابی سیاست کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔