تاریخ

نوبل امن انعام کے جنگی حقدار: 1938ء میں ہٹلر اور گاندھی کو شارٹ لسٹ کیا گیا

طارق علی

مترجم: فاروق سلہریا

اس ہفتے نوبل انعام دیئے جانے کے موقع پر یہ مضمون قارئین کے لئے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔ یہ مضمون 2002ء میں برطانوی اخبار’گارڈین‘ میں شائع ہوا۔ اس کی تاریخی اہمیت اور حسب حال ہونے کی وجہ سے اسے اردو ترجمے میں پیش کیا جا رہا ہے۔

1900ء میں جب نوبل انعام تشکیل دیا گیا تو نوبل کمیٹی بالکل واضح تھی کہ یہ انعام اُن افراد کو دیا جائے گا جو واقعی امن اور عدم تشدد میں یقین رکھتے ہوں۔ اس لئے 1901ء میں جب یہ انعام پہلی دفعہ دیا گیا تو انعام پانے والوں میں ریڈ کراس کے بانی ژاں ہنری ڈیمانٹ (سوئٹزر لینڈ) اور انٹرنیشنل لیگ فار پرماننٹ پیس کے فرانسیسی بانی فریدرک پاسی شامل تھے۔

پس پردہ کوئی بغاوت ہوئی ہو گی کہ 1906ء میں یہ انعام امریکی صدر تھیوڈر روز ویلٹ کو دے دیا گیا۔ سچ پوچھئے تو یہ مہم جو امریکی صدر ببانگ دہل جنگ اور مہم جوئی کا قائل تھا۔ ’دی رف رائڈرز‘ (جو 189ء میں شائع ہوئی) میں روز ویلٹ کیوبا میں اپنے ہسپانوی حریف سے ہونے والی امریکی جھڑپ (جس کے نتیجے میں گونتا نامو بے امریکی قبضے میں چلاگیا) بارے یوں رقم طراز ہیں: ”ہم اس وقت جذبے سے سرشار تھے اور حملے کی وجہ سے پر جوش۔ گولیوں کی بوچھاڑ میں بھی سپاہی آگے دوڑے چلے جا رہے تھے۔ خوشی سے سرشار، دستوں کی قیادت کرتے ہوئے افسران کے چہرے، بالخصوص نائنتھ کے کیپٹن سٹیونز کا چہرہ، آج بھی میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے“۔

روز ویلٹ کا سامراجی عزم آج بھی تسلیم کیاجاتا ہے۔ امریکی سیکرٹری دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ کے دفتر میں روز ویلٹ کا قول دیوار پر آویزاں ہے جس میں جنگ اور سلطنت کی شان بیان کی گئی ہے۔ نوبل کمیٹی کی مستقبل بینی قابل داد ہے۔

روز ویلٹ کو نوبل کا امن انعام دینے کے خلاف کافی بحث ہوئی ہو گی اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اس بحث میں امن پسند جیت گئے ہوں گے۔ اس لئے اگلے چار سال تک یہ انعام واقعی ایسے لوگوں کو ملا جو سچ میں امن کے لئے کوشاں تھے۔ اس کے فوری بعد پہلی عالمی جنگ میں بہنے والے خون آشام ماحول میں یورپ کا عہد زریں اپنے انجام کو پہنچا۔ سکتے کی ماری نوبل کمیٹی دبک کر بیٹھ گئی۔ 1914ء سے لے کر 1919ء تک نوبل انعام کا اعلان ہی نہیں کیا گیا۔ واحد استثنا 1917ء میں ریڈ کراس کو ملنے والا نوبل امن انعام تھا۔

یہ وقفہ تھوڑا حیران کن ہے کیونکہ اس وقت ایسے بے شمار مفکر اور سیاست دان موجود تھے جو اس جنگ کی مخالفت کر رہے تھے: کیر ہارڈی اور برٹرینڈ رسل (برطانیہ)، فرانسیسی سوشلسٹ رہنما ژاں ژارس جو اس جنگ کی مخالفت کرنے کی وجہ سے قتل ہوئے، جرمن پارلیمنٹ کے رکن کارل لیبکنیخت جنہوں نے جنگی بجٹ کی یہ کہہ کر مخالفت کی کہ ”محب وطن درحقیقت عالمی بلیک لیگ ہوتا ہے“ (بلیک لیگ سے مراد وہ شخص جو ہڑتال کے دوران مزدوروں سے غداری کر کے مالکوں کے ساتھ مل جائے: مترجم)۔

اسی طرح کارل لیبکنیخت کی ساتھی روزا لکسمبرگ جنہیں جنگ مخالف تقریروں کی وجہ سے جیل میں ڈال دیا گیا اور ہاں دو گمنام سے روسی جلا وطن، لینن اور ٹراٹسکی، جنہوں نے سوئٹزرلینڈ کے شہر زمر والڈ میں جنگ مخالف کانفرنس منعقد کرائی۔

ان میں سے کسی کو بھی نوبل امن انعام کا حقدار نہیں سمجھا گیا۔

1920ء میں کسی شک و شبے کا شکار ہوئے بغیر نوبل کمیٹی نے یہ انعام اتفاق رائے سے معاہدہ ورسائی کے معمار کو دے دیا۔ یوں 1920ء تک امریکی سامراج کے رجعتی اور لبرل نمائندوں…روز ویلٹ اور وڈرو ولسن…کو یہ انعام دیا جا چکا تھا۔ افسوس کہ نوبل کمیٹی کے کسی رکن نے جان کینز کا پر مغزکتابچہ ”امن کے معاشی نتائج“ نہیں پڑھا تھا۔ اس کتابچے میں ان خطرناک نتائج کو اجاگر کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں جرمنی کے اندر فسطائیت کو عروج ملا۔

1920ء کی ساری دہائی میں نوبل کمیٹی شرمناک بے بسی کی تصویر بنی رہی۔ رجعتی یا لبرل نظریات رکھنے والے سیاست دانوں کو اس انعام کا حق دار قرار دیا جاتا رہا۔ 1930ء کی دہائی میں عالمی سیاست پر جرمنی، اٹلی اور سپین میں فاشسٹ کامیابیوں، مانچوریا (چین) پر جاپانی قبضہ اور ہندوستان میں برطانوی راج کے خلاف پر امن تحریک ایسے واقعات کا غلبہ رہے۔

نوبل کمیٹی کو بھی ان سب حالات و واقعات کا احساس تھا۔ 1938ء میں جو لوگ شارٹ لسٹ ہوئے ان میں ہٹلر بھی شامل تھا اور گاندھی بھی۔ کمیٹی کے لئے فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ ان میں سے کس کو انعام دیا جائے لہٰذا انعام کا حقدار نانسن انٹرنیشنل آفس برائے مہاجرین کو قرار دے دیا گیا۔

ہٹلر کا شارٹ لسٹ ہونا آج کے حالات میں عجیب لگتا ہے لیکن یاد رہے کہ ان دنوں ہٹلر کو بالشوازم کے خلاف ایک دیوار سمجھا جا رہا تھا۔ امریکی مصنف جرٹریوڈ سٹائن نے تو مئی 1934ء میں ہی نیو یارک ٹائمز میگزین میں ہٹلر کو نوبل انعام دینے کی سفارش کی: ”میرا ماننا ہے کہ ہٹلر کو ہر صورت نوبل انعام ملنا چاہئے کیونکہ وہ جرمنی میں مقابلے اور جدوجہد کے تمام عناصر کا صفایا کر رہے ہیں“۔

مزید لکھتی ہیں: ”یہودیوں، جمہوریت پسندوں اور بائیں بازو کا صفایا کر کے وہ ان تمام عناصر کا صفایا کر رہے ہیں جن کی وجہ سے سرگرمیاں جنم لیتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے امن…یہودیوں کو نکال باہر کرنے سے، انہیں دبانے سے جدوجہد کا خاتمہ ہو جائے گا“۔

1938ء میں ٹائم میگزین نے ہٹلر کو ”مین آف دی ائر“ قرار دیا اور ہٹلر کا ایک تعریف بھرا خاکہ شائع کیا۔ برطانیہ میں ٹائم کے مدیر جیفری ڈاوسن کو یقین تھا کہ برطانیہ جرمن معاہدہ امنِ عالم کے لئے کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ حملے سے قبل جس قسم کی بیان بازی ہٹلر کر رہا تھا، اس سے بھی یہ شائبہ ہوتا تھا گویا وہ امن کی خواہش رکھتا ہے۔

ایک طرف اپنے حملوں کو تیسری رائخ کو لاحق خطرات سے نپٹنے کے لئے جرمنی نے دفاعی جنگیں قرار دیا۔ دوسری طرف ان حملوں کا مقصد یہ بتایا گیا کہ جرمنی، پولینڈ، چیکو سلواکیہ اور ناروے میں جرمن النسل لوگوں کی زندگیاں بچانا چاہتا ہے۔

کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ اگر ہٹلر کو انعام نہیں دینا تو پھر گاندھی کو بھی نہیں دیا جا سکتا۔ کیا ان کو مشترکہ انعام دینے بارے سوچا جا رہا تھا جیسا کہ بعد ازاں رواج بن گیا ہے؟ 1973ء میں ہنری کسنجر اور ویت نام کے چیف مذاکرات کار لی دُک تھو (Le Duc Thu) کو یہ انعام مشترکہ طور پر دیا گیا مگر لی نے ہنری کسنجر کی معیت میں یہ انعام لینے سے انکار کر دیا۔

1978ء میں یہ انعام سابق اسرائیلی دہشت گرد اور وزیر اعظم منچن بیگن کو وفاداریاں بدل لینے والے مصری رہنماانور سادات کے ساتھ مشترکہ طور پر دیا گیا۔ 1994ء میں یہ مال غنیمت یاسر عرفات، اضحاک رابن اور شمعون پیرس کے ہاتھ لگا۔ 1979ء میں یہ انعام اکیلی مدر ٹریسا کو کیوں دے دیا گیا؟ ان کے قریبی دوست اور سپانسر، ہیٹی کے پاپا ڈویلیئر کو بھی مدر ٹریسا کے ساتھ مشترکہ انعام دیا جا سکتا تھا؟

اسی روایت کو جاری رکھتے ہوئے 2002ء میں جارج بش اور ٹونی بلیئر کو مشترکہ حقدار کے طور پرشارٹ لسٹ کیا گیا۔ دنیا بھر سے 43000 احتجاجی خطوط موصول ہونے کے بعد یہ فیصلہ بدل دیا گیا۔ ممکن ہے یہ انعام کسی اور موقع پر دے دیا جائے۔ عراق پر امریکی قبضہ مکمل ہونے تک یہ انعام موخر کیا جا سکتا ہے۔ کابل میں امریکی کٹھ پتلی حامد کرزئی کا نام بھی زیر غور آیا مگر کرزئی کو ملا عمر کے ساتھ مشترکہ انعام دینے پر غور نہیں ہوا حالانکہ ملا عمر نے مزاحمت نہ کر کے افغانستان پر قبضے کی جنگ کو طوالت سے بچایا۔

گھبراہٹ میں یہ انعام ایک اور امریکی صدر کو دیدیا گیا۔ جمی کارٹر کو انعام دئے جانے کے موقع پر مندرجہ ذیل خدمات کا ذکر کیا جا سکتا ہے:

جمی کارٹر نے ارجنٹینا کے اندر ڈیتھ سکواڈ چلانے والے قاتلوں کو سی آئی کے ذریعے ہنڈوراس میں نکارا گوا کے کانٹرا باغیوں کو فوجی تربیت دی تا کہ وہ نکارا گوا میں ساند دانستا کی انقلابی حکومت کو گرا سکیں۔

سلواڈور کی فوج کو بھاری اسلحہ اور امداد فراہم کی اور پانامہ میں امریکی فوج کے ذریعے سلواڈور ملٹری کی تربیت کا اہتمام کیا۔

امریکہ کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک کو جنوبی کوریا بھیجا جہاں مزدور اور طلبہ جمہوریت کے لئے جدوجہد کر رہے تھے۔ ہالبروک نے کورین فوج کو اپنی حمایت کا یقین دلایا اور ان کو تلقین کی کہ اس بغاوت کو کچل ڈالو۔ مارچ 1980ء میں تین ہزار کورین ہلاک ہوئے تھے۔

سی آئی اے کو افغانستان میں خفیہ کاروائی کی اجازت دی جس کے نتیجے میں مجاہدین وجود میں آئے جبکہ سعودی عرب کی مالی اور نظریاتی مداخلت بھی افغانستان میں شروع کرنے کا اشارہ دیا۔ اس عمل کو اسامہ بن لادن کی سربراہی میں شروع کیا گیا۔

جب ویت نام کے ہاتھوں پول پاٹ کو شکست ہو گئی تو انہیں تھائی لینڈ میں دوبارہ مسلح اور منظم کیا۔

جنوبی ویت نام میں مائی لائی کے بدنام زمانہ قتل عام کے الزام میں جیل کاٹنے والے لیفٹنٹ ولیم کیلی کی رہائی کی مہم چلائی۔

مشرقی تیمور میں خونی قبضہ جمائے رکھنے والی انڈونیشین فوج کو اسلحہ اور امداد فراہم کی۔

عیسائی بنیادپرستوں کی حوصلہ افزائی کی۔

اپنے کھاتہ داروں سے دھوکا کرنے والے بنک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل سے مالی امداد قبول کی۔

ان تمام خدمات پر نوبل کمیٹی 2002ء کا نوبل امن انعام صدر جمی کارٹر کو پیش کرتی ہے۔

متعلقہ مضمون

علامہ اقبال کبھی بھی نوبل انعام کے لیے نامزد نہیں ہوئے: مفروضے اور حقیقت

Tariq Ali
+ posts

طارق علی بائیں بازو کے نامور دانشور، لکھاری، تاریخ دان اور سیاسی کارکن ہیں۔