خبریں/تبصرے

بائیڈن ٹرمپ مباحثہ مگر دور دور سے!

قیصر عباس

گزشتہ جمعرات کو امریکہ کے صدارتی امیدواروں، جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مختلف ٹی وی چینلوں پر ایک ہی وقت میں دو الگ ٹاؤن ہال مباحثے ہوئے جس میں دونوں نے آن لائن شرکا اور حاضرین کے سوالوں کے جوابات دئے۔ا ن مباحثوں کے بعد کئے گئے مختلف تبصروں میں کہا گیا ہے کہ اس سے جو بائیڈن کی صدارتی مہم کی مقبولیت میں مزید اضافے کی امید ہے اگرچہ فوری طور پر انتخابی نتائج کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

یہ مباحثہ 15 اکتوبر کو روائتی انداز میں دوبہ دو ہونے والا تھا لیکن کرونا وائرس کے پیش نظر منتظمین نے اسے آن لائن کر دیا تھا جس کے بعدصدر ٹرمپ نے اس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا۔ اس صورت حال میں دونوں صدارتی امیدواروں نے ٹی وی پروگراموں کے ذریعے انتخابی مہم جاری رکھی۔

اے بی سی ٹی وی کے پروگرام میں جوبائیڈن نے ایک نپے تلے انداز میں استدلال اور اعداد و شمار کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ صدر ٹرمپ کرونا وائرس اور بے روزگاری پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنا یہ بیان دہرایا کہ صدر ٹرمپ نے کرونا وائرس کی روک تھام کے لئے کوئی منصو بہ نہیں بنایا ”کیوں کہ وہ اسٹاک مارکیٹ کے لئے زیادہ فکرمندتھے۔“

پروگرام کے اینکر جارج سٹیفناپلس نے سپریم کورٹ کے نئے جج کی نامزدگی، نسلی انصاف، آمدنی او ر مساوات، عوامی سہولیات اور پو لیس اصلاحات پر سوالات کئے۔ ایک اور سوال کے جواب میں جوبائیڈن نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ججوں میں اضافے کا فیصلہ حالات کے مطابق کیا جائے گا اگرچہ وہ اس سلسلے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔

امریکہ میں اس مسئلے پر آج کل بحث جاری ہے کہ اگر صدر ٹرمپ انتخابات سے پہلے کورٹ کے ایک جج کی نامزدگی کر دیتے ہیں تو کیا نئی آنے والی انتظامیہ بھی ججوں کوتعداد میں اضافے کے اقدامات اٹھائے گی؟

دوسری طرف این بی سی ٹی وی کی اینکر سوینا گتھری نے صدر ٹرمپ سے ان کے ٹیکس کے گوشواروں، کرونا وائرس اور دوسرے مسائل پر سوالات کئے۔ انہوں نے صدر سے سفید فام نسل پرست گروہوں اور سازشی افواہوں سے لاتعلقی کا مطالبہ کیا جس پر صدر ٹرمپ نے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔ انہوں نے اس سوال کا جواب دینے سے بھی انکار کیا کہ وہ بائیڈن کے ساتھ پہلے دُو بہ دُو مباحثے کے دوران کرونا وائرس کا شکار ہو چکے تھے یا نہیں؟ اس مباحثے کے بعد وہ اس وبا کے علاج کے لئے ہسپتال داخل کئے گئے تھے۔

ٹرمپ کے ٹیکس گوشواروں سے متعلق اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہ 421 ملین ڈالرزکے مقروض ہیں انہوں نے کہاکہ”یہ بہت معمولی رقم ہے۔“ انہوں نے یہ بھی کہاکہ وہ کسی بیرونی بینک کے مقروض نہیں ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے حال ہی میں یہ انکشات کیاہے کہ ٹرمپ روسی بینکوں کے مقروض ہیں۔

صدر ٹرمپ کا رویہ اس پروگرام میں شروع ہی سے جارحانہ تھا جس میں انہوں نے اینکر کے سوالات کے دوران بلاضرورت مداخلت اور ان پر تنقید بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ ملک میں جاری احتجاجی جلوسوں پر سوالات کیوں نہیں کرتیں جو لوگوں کی املاک تباہ کر رہے ہیں اور افراتفری کے ذمہ دار ہیں؟

ذرائع ابلاغ کے اعداد و شما ر کے مطابق اے بی سی پر جوبائیڈن کے پروگرام کو 14 ملین سے زیادہ لوگوں نے جب کہ این بی سی اور اس کے کئی چینلوں پر صدر ٹرمپ کا پروگرام 13 ملین سے کچھ زیادہ لوگوں نے دیکھا۔ اس طرح بیشتر نتائج کے مطابق جو بائیڈن کا پروگرام زیادہ ناظرین نے دیکھا۔

دونوں صدارتی امیدوار انتخابات کے آخری دنوں میں اپنی توجہ ان ریاستوں پر مرکوز کر رہے ہیں جو انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہیں۔

امریکہ میں ڈاک کے ذریعے اور قبل از وقت ووٹنگ کا آغاز ہو گیا ہے اور کہا جا رہاہے کہ اب تک تقریباً 22 ملین لوگ پورے ملک میں اپنا حق رائے دہی استعمال کر چکے ہیں۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں مبصرین کا خیال ہے کہ ان انتخابات میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ووٹ دے گی اور اور امید کی جارہی ہے 150 ملین ووٹر اپنا حق رائے دہی استعما ل کریں گے۔

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔