ڈاکٹر مظہر عباس
لکھاری نے یہ آرٹیکل 2018ء میں ڈبلن سٹی یونیورسٹی کے آئرلینڈ انڈیا انسٹیٹیوٹ میں کی بین الاقوامی کانفرنس میں پریزینٹ کیا تھا جس پہ اسے بہترین آرٹیکل کا ایوارڈ بمع 600یورو ملا تھا۔
نوآبادیاتی دور کے سندھ میں کسان مزاحمت کی اہم شخصیات میں سے ایک مائی بختاور شہید بھی ہیں جنھوں نے جاگیرداروں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر کے اس خطے کی دیگر خواتین کے لیے ہمت اور حوصلے کی ان مٹ داستان رقم کی۔ سندھ، جو کہ پاکستان کے بڑے صوبوں میں سے ایک ہے، کی بیشترتاریخ کسان تحریکوں پر مشتمل ہے جو زمیندار اشرافیہ کی طاقت کے خلاف کسانوں کی مزاحمت کی عکاس ہے۔ یہ اس بات کا رد عمل تھا کہ سندھ میں زمینداروں نے کسانوں کا استحصال کیا جس کی وجہ سے مؤخرالذکر نے خود کو منظم کیا۔ وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے زمیندار طبقہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
سندھی خواتین نے بھی مردوں کی طرح اس جدو جہد میں حصہ لیا۔ تاہم اب تک، ان کے کردار کو بڑی حد تک نظرانداز کیا گیا ہے۔ اس طرح کسان بغاوت میں خواتین کے کردار کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔ مائی بختاوربھی باقی کسان تحریکوں کی بہت سی خواتین کی طرح، جیسا کہ خیبر پختونخواہ کی بی بی الائی (روشنائی تحریک) اور پنجاب کی مائی لاڈھی (دلا بھٹی تحریک)، مورخین کی توجہ مبذول نہیں کرا سکی لہٰذا مورخین ان خواتین ہیرو کے ساتھ انصاف کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ کہنا غیر مناسب نہیں ہو گا کہ مائی بختاور کو دو وجوہات کی بنیاد پر نظر انداز کیا گیا ہے: اس کے طبقہ (کسان ہونے) کی وجہ سے اور اس کی صنف (عورت ہونے) کی وجہ سے۔
بختاور 1880ء میں تحصیل ٹنڈو باگو کے گاؤں دودو خان سرگانی میں ایک کسان خاندان، جو کہ لاشاری بلوچ تھا، میں پیدا ہوئی تھی۔ وہ بچپن سے ہی بہادر مشہورتھی۔ بختاور کی شادی ولی محمد لاشاری سے 1898ء میں ہوئی تھی جو ایک جاگیردار اشرافیہ کی زمینوں پر کسان کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ اس کا گاؤں پنجابی جاگیرداروں کی جاگیر کا حصہ تھا جس میں 40 ہزار ایکڑ اراضی شامل ہے۔ ان دنوں معمول تھا کہ زمیندار فصل کی کٹائی کے وقت مسلح افراد کے ساتھ آتے اور فصل کا زیادہ ترحصہ خود لے جاتے جبکہ فصل کا قلیل حصہ کسانوں کے لئے چھوڑ جاتے۔
1946ء میں، سانگھڑ، نواب شاہ اور تھرپارکر اضلاع میں کسانوں اور زمینداروں کے مابین بٹائی (فصل کی تقسیم) پر تنازع کھڑا ہو گیا۔ زمینداروں نے کسانوں سے فصل کا زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کا مطالبہ کیا۔ تاہم کسانوں نے فصل کا آدھے سے زیادہ حصہ دینے سے انکار کر دیا۔ اس کے نتیجے میں کسانوں اور جاگیرداروں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ مؤخرالذکر نے ریاستی مشینری، افسرشاہی اور پولیس کی مدد سے بہت سے دیہات میں کسانوں پر حملہ کیا اور انہیں کھیتوں سے نکال دیا۔ جس کا جواب سندھ ہاری کمیٹی نے صوبہ بھر میں مظاہرے، ریلیاں، کانفرنسیں اور اجلاس منعقد کر کے دیا۔
حیدر بخش جتوئی اور دیگر رہنماؤں نے ایک تحریک شروع کی اور مطالبہ کیا کہ کسانوں کو ان کی فصل کا نصف حصہ دیا جائے۔ اس تناظر میں، جتوئی نے کسان کانفرنس کا انعقاد کیا جو تین دن، 20 تا 22 جون 1947ء تک جاری رہی۔
22 جون کو مردوں اور خواتین کی اکثریت جھڈو گاؤں میں کانفرنس میں شرکت کے لئے گئی ہوئی تھی۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس علاقے کا زمیندار سعد اللہ گاؤں میں داخل ہوا اور اپنے منیجر خالد اور کچھ مسلح غنڈوں کی مدد سے فصل کی پوری پیداوار چھیننے کی کوشش کی۔
تاہم مائی بختاور نے اس گروپ کو للکارا اور کہا: ”آپ اس وقت تک یہاں سے اناج کا ایک بھی دانہ نہیں لے جا سکتے جب تک کہ اس فصل کے اصل مالکان کانفرنس سے واپس نہ آجائیں اور اپنا بنیادی حق حاصل نہ کرلیں“۔ پھر اس نے نعرہ بلند کیا کہ ”جو بوئے گا وہی کاٹے گا“۔
مائی بختاور کے جراتمندانہ جواب اور انقلابی نعرے نے جاگیردار اور مسلح افراد کو لاجواب کر دیا جس پہ انہوں نے مشتعل ہو کر مائی بختاور کو گولی مار دی۔ وہ موقع پر ہی دم توڑ گئیں۔ بعد میں اس کے قاتلوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ یہاں یہ بتانا غیر مناسب نہیں ہو گا کہ وہ جاگیر دار جنہوں نے مائی بختاور کو شہید کیا تھا وہ پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ سر ظفراللہ خاں کے قریبی رشتہ دار تھے۔
وہ پہلی خاتون تھی جس نے سندھ میں کسان بغاوت کی تاریخ میں شہادت پائی۔ اس نے کسانوں کے حقوق کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ وہ ایسے دور افتادہ علاقے میں رہتی تھی جہاں عورت تو دور کی بات بلکہ مرد بھی اپنے حقوق کے لئے جاگیرداروں کے خلاف آواز اٹھانے سے خوفزدہ تھے۔ اس نے اپنا خون جلا کر مزاحمت کا چراغ جلائے رکھنے کی کوشش کی۔ اسی لئے اسے ’سندھی جان آف آرک‘ کہا جاتا ہے۔ اس نے دوسری خواتین کے لئے بھی راستہ ہموار کیا اوران کو کسانوں کی تحریک میں حصہ لینے کی ترغیب دی۔
کہا جاتا ہے کہ سندھیانی تحریک کی خواتین (سندھ میں خواتین کی تحریک) مائی بختاور کی جدوجہد سے متاثر تھیں۔ اس کی قربانی سے سندھ حکومت کو سندھ ٹینینسی ایکٹ 1950ء جاری کرنا پڑا تھا جس نے کسانوں کو فصل کی کل پیداوار کا نصف حصہ لینے کا حق دیا۔ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے اپنی بیٹی کا نام بختاور بھٹو مائی بختاور شہید کے نام پر رکھا۔ میرپورخاص ضلع کی کنری تحصیل میں لڑکوں کے لئے ایک یونین کونسل اور پرائمری اسکول بھی اس کے نام پر رکھا گیا ہے۔ بے گھر خواتین کاشتکاروں کو 2016ء میں پہلی بار ٹینینسی کے حقوق ملے تھے۔
تاہم مائی بختاور کے کردار کو بڑے پیمانے پر فراموش کیا گیا ہے۔ یہ اس حقیقت سے ظاہر ہے کہ ان پر ایک بھی تحقیقی مقالہ نہیں لکھا گیا ہے۔ اس کے پیچھے دو وجوہات ہیں: ایک یہ کہ وہ دیہی سندھ کے ایک غریب کسان گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اوردوسرا یہ کہ وہ پدر سری معاشرے کی خاتون تھی۔ انہیں سندھ کے زمینی اشرافیہ کے خلاف مزاحمت کی علامت ہونے کی وجہ سے یاد رکھنا چاہئے کیونکہ ان کا کردار امریکہ کی خواتین ٹیکسٹائل ورکرز سے کم اہم نہیں ہے جنہوں نے 1857ء میں سرمایہ داروں کے ذریعے ان کے استحصال کے خلاف بغاوت کی تھی۔