کوئٹہ (نامہ نگار) کوئٹہ میں گذشتہ روز نان بائیوں کی ہڑتال کے پانچ روز مکمل ہو گئے۔ یہ ہڑتال آٹا مہنگا ہونے کی وجہ سے کی گئی ہے۔
نان بائیوں کا موقف ہے کہ آٹے کی سو کلو والی بوری سات ہزار روپے میں مل رہی ہے جبکہ روٹی کی قیمت نہیں بڑھی لہٰذا حکومت آٹا سستا کرے یا پھر روٹی کی قیمت بڑھائی جائے۔
’روزنامہ جدوجہد‘سے گفتگو کرتے ہوئے کوئٹہ کے بعض شہریوں کا کہنا تھا کہ نان بائیوں کے اس مطالبے سے وہ متفق نہیں ہیں کہ روٹی کی قیمت بڑھائی جائے البتہ حکومت کو سستے آٹے کی فراہمی یقینی بنانی چاہئے۔
بعض رہائشیوں کا کہنا تھا کہ پہلے بھی نان بائیوں نے ہڑتال کی تھی لیکن آٹا سستا نہ ہونے کی وجہ سے روٹی کے وزن میں کمی کر دی گئی۔
حکومت کی طرف سے مقرر ہ وزن (فی روٹی 250 گرام) کی قیمت 20 روپے ہے جبکہ گذشتہ ہڑتال کے بعد نان بائیوں نے گراموں میں کمی کر دی تھی۔
اس وقت شہر میں روٹی کی شدید قلت ہے۔ ریستورانوں میں فی روٹی 60 روپے جبکہ آدھی روٹی تیس روپے کی قیمت پر بیچی جا رہی ہے۔ ریستوران مالکان کا کہنا ہے کہ وہ خود بلیک مارکیٹ سے روٹی خرید رہے ہیں۔ زیادہ تر روٹی کینٹ، کچلاک، گلستان اور دیگر علاقوں سے لا رہے ہیں۔
تندوروں کو احتجاجی طور پر بند کرنے کی وجہ سے بہت سارے مسائل پیدا ہوگئے ہیں بالخصوص ان لوگوں کے لیے جن کے اپنے گھر کوئٹہ میں نہیں۔ خاص طور پر مزدور اور طلبہ کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
’روزنامہ جدوجہد‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ایک ریستوران مالک کا کہنا تھا کہ وہ دن میں تین ساڑھے تین ہزار کا سالن بیچتا تھا جبکہ نان بائیوں کی ہڑتال کی وجہ سے اس نے ایک روپے کا سالن بھی نہیں بیچا۔ ”ایک طرف روٹی ملتی نہیں ہے تو دوسری طرف مہنگی اور ٹھنڈی روٹی کی وجہ سے گاہک آتے نہیں، اس لیے میرا سارا کاروبار جام ہوگیا ہے“۔
دوسری طرف بڑے ہوٹلوں میں، جہاں تک عام آدمی کی رسائی نہیں ہے، ہڑتال سے کچھ اثر نہیں پڑا نہ ہی کوئٹہ کینٹ میں ایسا کوئی مسئلہ ہے۔ ابھی تک حکومت کی طرف سے بھی کوئی بیان نہیں آیا ہے۔ پی ڈی ایم کے جلسے میں اس مسئلے پر کوئی خاص بات نہیں ہوئی۔