اداریہ جدوجہد
اتوار کے روز پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) نے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا آغاز کیا۔ اس پر امن مارچ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ نوے کی دہائی کے بعد اس بڑے پیمانے پر ایک احتجاجی مارچ منعقد کیا جا رہا تھا۔ قوم پرست حلقوں کی جانب سے، نوے کی دہائی میں، جو مارچ ایل او سی کی جانب کئے گئے انہیں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی سیاسی تاریخ میں سب سے بڑی موبلائزیشنز کہا جاتا ہے۔ ان مارچز کی یادیں ریاست کے پرانے سیاسی کارکنوں کے دماغوں میں آج بھی تازہ ہیں۔
اتوار کو شروع کیا جانے والا مارچ اتنا بڑا تو نہ تھا لیکن اسی طرز پر کیا جانے والا ایک اہم سیاسی مظاہرہ تھا۔ اس مارچ کی اہمیت یہ بھی تھی کہ ایل او سی کی بجائے یہ مارچ اسلام آباد کی جانب جانا چاہتا تھا کیونکہ زیادہ تر مطالبات کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر (بشمول گلگت بلتستان) سے تھا۔
اس مارچ کو راولا کوٹ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر روک دیا گیا۔ مارچ روکنے کے لئے سڑکیں بھاری پتھروں سے بلاک کر دی گئیں۔ احتجاجاً مارچ کے پر امن شرکا نے دھرنا دے دیا۔ اس دھرنے میں جے کے ایل ایف کے مرکزی رہنما سردار صغیر خان ایڈوکیٹ سمیت جے کے ایل ایف کی ساری مرکزی قیادت شامل تھی۔
اس قیادت کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ بالخصوص سردار صغیر خان ایڈوکیٹ ان اہم کشمیری سیاست دانوں میں شمار ہوتے ہیں جنہیں ہر طرح کی سیاسی سوچ رکھنے والے، حتیٰ کہ ان سے شدید اختلاف رکھنے والے بھی، احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں جس کی وجہ ان کی اپنے نظریات سے لگن اور ایک طویل جدوجہد ہے۔
اس قیادت کو بعض دیگر کارکنوں کے ہمراہ پیر کی صبح گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کے وقت ریاستی پولیس نے غیر ضروری اور بلا اشتعال تشدد سے کام لیا۔ پچاس سے زائد قائدین اور کارکن تا دم تحریر پابند سلاسل ہیں۔ دریں اثنا، اس تاریخی مارچ کی کوئی کوریج مین سٹریم پاکستانی میڈیا میں نظر آئی نہ ریاستی تشدد کو کسی نے رپورٹ کیا۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے قوم پرست حلقے اگر یہ نقطہ اٹھا رہے ہیں کہ اتنا بڑا لانگ مارچ وادی میں ہوا ہوتا اور اس کے خلاف بھارتی ریاست نے تشدد کیا ہوتا تو پاکستانی میڈیا خون کے آنسو بہا رہا ہوتا۔
حزب اختلاف جو ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے پر جلسے کرنے میں مصروف ہے، اسے بھی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جمہوریت کے خلاف یہ تشدد نظر نہ آیا۔ شرمناک بات تو یہ ہے کہ جب بلاول بھٹو زرداری گلگت بلتستان میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں، جے کے ایل ایف سے اس کے پر امن احتجاج کا حق بھی چھینا جا رہا ہے مگر پیپلز پارٹی کے قائد نے ایک ٹویٹ تک کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اس سے بڑی شرم کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں نواز لیگ کی حکومت ہے جو بظاہر یہ سب کر رہی تھی۔
اس واضح منافقت کی سیدھی سی وجہ ہے: پی ڈی ایم ہو یا تحریک انصاف، سار ی مین سٹریم سیاسی جماعتیں کشمیر کے مسئلے پر فوج کے پیج پر ہیں۔ ان جماعتوں کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں اپنی حکومتیں مسلط کرنے کا شوق تو ہے مگر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کے جمہوری، سیاسی، معاشی اور ماحولیاتی حقوق سے کوئی دلچسپی نہیں۔
ہم جے کے ایل ایف کے لانگ مارچ کے خلاف ریاستی تشدد اور قیادت کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ ہم قائدین کی فوری رہائی کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔ ہمارا موقف ہے کہ جوطبقے ریاست جموں کشمیر کے باشندگان کے چھوٹے سے پر امن جمہوری اظہار کو برداشت نہیں کر سکتے، وہ ان کے استصواب رائے کے حق کی بات کرنے کا بھی حق نہیں رکھتے۔