بینا سرور
ترجمہ: حارث قدیر
سلیم عاصمی کو ایک بار انکے ایک پرانے دوست ایس ایم شاہد نے خاکوں پر مبنی اپنی کتاب Living Souls: Memories میں ”مارکسی صوفی“ کہا تھا۔
عاصمی صاحب عام طور پر اپنی تعریفوں پر توجہ نہیں دیتے تھے، اس لئے نہیں کہ وہ خود آگاہ نہیں تھے بلکہ اس لئے کہ ان میں کوئی جعلی فخر یا جعلی عاجزی نہیں تھی، نہ ہی ان میں رتی بھر منافقت کا عنصر موجود تھا۔
اس سب کو دیکھتے ہوئے وہ دوستوں اور خاندان کی طرف سے قبر کے کتبے کیلئے منتخب اپنے پسندیدہ شاعر کا درج ذیل شعر دیکھتے ہوئے مسکرا اٹھتے ہونگے:
یہ مسائلِ تصوف، یہ تیرا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
جب میری 1990ء کی دہائی میں ان سے پہلی ملاقات ہوئی تو بکھری ہوئی مونچھوں اور داڑھی (جو بعد کی زندگی میں قدرتی طور پر سنوری ہوئی تھی)، گردن کے پیچھے تک لمبے گھنگریالے بال اور سادہ قمیض اور جینزپہنے عاصمی صاحب ایک اخبار کے ایڈیٹر سے زیادہ ایک سرکش آرٹسٹ کی طرح نظر آ رہے تھے۔ کام کی جگہ پر انکا لباس”سفاری سوٹ“ ہوتا تھا جو ایک طرح سے ان کی جانب سے عدم بغاوت کی واحد علامت تھی۔
میرے اباکے دیگر دوستوں کی طرح وہ میرے لئے انکل یا چچا نہیں تھے۔ بس عاصمی صاحب تھے۔ میں نے کبھی کسی کو انہیں انکے دوسرے نام، سید فضل سلیم، سے پکارتے نہیں سنا۔ میں اس وقت کراچی سے لاہور منتقل ہو چکی تھی اور ایک صحافی کی حیثیت سے زندگی کا آغاز کر رہی تھی، جب ضیا الحق کی فوجی آمریت کی وجہ سے کئی سالوں کی خود ساختہ جلا وطنی کے بعد عاصمی صاحب پاکستان واپس آئے تھے۔
ہماری دوست انیس ہارون بیان کرتی ہیں کہ، جب وہ اور ان کے شوہر ڈاکٹر ہارون احمد ایک رات فنکار بشیر مرزا کے گھر سے رخصت ہو رہے تھے، تو انہیں سیڑھیوں سے قدموں کی آواز سنائی دی، ایک اجنبی اوپر آ رہا تھا۔
پھر ایک تماشاشروع ہو گیا۔ ہارون اور نووارد نے ایک دوسرے کا گرمجوشی سے استقبال کیا ور بغل گیر ہو گئے۔ انیس اس اضطرابی کیفیت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ بڑی مونچھوں والے اس وڈیرے کا انکے خاوند نے ایک پرانے دوست کی طرح استقبال کیا۔
ڈاکٹر ہارون نے کہا ”یہ عاصمی ہے، ہمارے ڈی ایس ایف کے کامریڈوں میں سے ایک“۔ دبئی میں خلیج ٹائمز کے ایڈیٹر کے طور پر کام کرنے والا عاصمی 1988ء میں پاکستان واپس لوٹ گیا تھا۔ ضیائی دور میں پھیلے اندھیروں کو ختم کرنے کیلئے تبدیلی کی ہوائیں چل رہی تھیں۔ ایک نئی سحر افق سے طلوع ہو رہی تھی، وہ سحر جو ہم کبھی حاصل نہیں کر سکے، جیسا کہ فیض احمد فیض نے فصاحت کے ساتھ کہا۔
اس نئے پرانے دوست سے باتیں کرنے میں انیس کو کچھ وقت لگا جو تھوڑا سا ڈاکو دکھائی دیتا تھا لیکن اس بیرونی حلئے کے اندر بے حد خوبصورت اور دلکش، کھلے دل، آرٹ اور موسیقی سے پیار اور سیاست اور زندگی کے شوق سے مزئین شخصیت تھی۔ ہارون نے انہیں میرے والد، ڈاکٹر ایم سرور سے دوبارہ ملوایا، جنہوں نے 1950ء کے دہائی میں ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن (ڈی ایس ایف) کی قیادت کی تھی۔
عاصمی صاحب نے اپنے آپ کو لیڈر کی بجائے ہمیشہ کارکن کی حیثیت سے متعارف کرانے پر فخر محسوس کیا، حالانکہ وہ ایس ایم کالج میں ڈی ایس ایف کے صدر رہ چکے تھے۔ 2009ء میں میرے والد کے انتقال کے بعد عاصمی صاحب ڈی ایس ایف کے ان کلیدی کارکنوں میں سے ایک تھے جنکا ہم نے ڈی ایس ایف سے متعلق دستاویزی فل ”اور نکلیں گے عشاق کے قافلے“ کیلئے انٹرویو کیا۔ عاصمی صاحب نے ہی فیض احمد فیض کے لافانی کلام سے مستعار لیا گیا ٹائٹل تجویز کیا: ”ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے“۔
دائیں بازو کے طلبہ 1953-54ء میں مختصر مدت چلنے والی لیکن طاقتور اور ملک گیر طلبہ تحریک کے سرگرم کارکنوں کو کمیونسٹ قرار دیکر ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے تھے۔ اس بارے عاصمی صاحب نے اپنی ظاہری سنجیدہ شخصیت کے پیچھے چھپی ہلکی سے مسکراہٹ اور چمکتی آنکھوں کے ساتھ کہا ”مجھے اگر کسی نے ایسا کہا بھی تو میں نے کبھی پرواہ نہیں کی“۔
ہم کئی طرح سے بہت سارے معاملات اور بیشمار دوستوں کے ذریعے رابطے میں رہے۔ وہ میری بیٹی کیلئے ”عاصمی نانا“ تھے۔ درحقیقت انہیں بچوں اور نوجوانوں سے خاص لگاؤ تھا۔ وہ غرور و تکبر سے پاک عاجزی و ہمدردی کی خصوصیات رکھنے والے انسان تھے۔
عاصمی صاحب اپنے گھریلو ملازمین کے ساتھ بھی اسی احترام و عزت سے پیش آتے تھے جیسے وہ بچوں اور ساتھیوں سے پیش آتے تھے۔ اس کا بدلہ پھر انہوں نے انہیں دیکھ بھال اور عقیدت کی صورت میں دیا، بالخصوص جب وہ چلنے پھرنے کے قابل نہ رہے اور وہیل چیئر پر آ گئے تھے۔ انہوں نے اپنی بیماریوں اور تکالیف کو پرسکون طریقے سے برداشت کیا اور کبھی بھی کسی بات کی شکایت نہیں کی۔
2012ء میں ایس ایم شاہد کی مرتب کردہ کتاب ”سلیم عاصمی-انٹرویوز، آرٹیکلز، ریویوز“ کی تقریب رونمائی میں صحافی علی صدیقی نے کہا کہ بطور ایڈیٹر سلیم عاصمی نے کبھی باس بننے کی کوشش نہیں کی۔
عاصمی صاحب نے کراچی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنے کے بعد ٹائمز آف کراچی سے بطور ٹرینی سب ایڈیٹر صحافتی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ 1960ء کی دہائی کے اوائل میں، وہ لاہور میں سول اینڈ ملٹری گزٹ کے ساتھ کام کر رہے تھے، پھر وہ پاکستان ٹائمز کے ساتھ منسلک ہو گئے۔ لاہور میں ہی ان کی اور آئی اے رحمن کی پہلی ملاقات ہوئی۔
آئی اے رحمن ان سے کچھ سال بڑے تھے اور 1951ء سے پاکستان ٹائمز کے ساتھ تھے۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ عاصمی صاحب مختصر مدت کیلئے پاکستان ٹائمز چھوڑ کر پی آئی اے کے شعبہ تعلقات عامہ میں چلے گئے تھے، لیکن جلد ہی پاکستان ٹائمز کے راولپنڈی آفس سے منسلک ہوتے ہوئے صحافت میں واپس آگئے تھے۔ 1977ء میں جنرل ضیا الحق کی فوجی بغاوت کے فوراً بعد عاصمی ان صحافیوں میں شامل تھے جنہیں فوجی آمریت کی مزاحمت کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا تھا۔
1978ء میں جب روزنامہ ”دی مسلم“ اسلام آباد کا اجرا کیا گیا تو ایڈیٹر اے ٹی چوہدری کے ہمراہ بطور نیوز ایڈیٹر عاصمی صاحب بھی لانچنگ ٹیم میں شامل تھے۔ انہیں دی مسلم کا پہلا سرورق ڈیزائن کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس سرورق کے لئے انہوں نے کافی تحقیق کی جیسا کہ آئی اے رحمن نے ”دی اینڈ آف سپرنگ“ میں تذکرہ کیا ہے۔
اسی دوران انکی دوستی اور گہری ہو گئی۔ آئی اے رحمن اب نیشنل فلم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے ساتھ کام کرتے تھے اور انہیں اکثر لاہور سے دارالحکومت اسلام آباد کیلئے پرواز لیناپڑتی تھی۔ عاصمی انہیں اپنی چھوٹی فوکسی میں ایئرپورٹ سے لینے جاتے تھے۔ حال ہی میں جب ہماری بات ہوئی تو رحمن صاحب نے یادداشتیں دہراتے ہوئے کہا کہ ”وہ مجھے سارا دن گاڑی میں گھوماتے رہتے اور واپس ایئرپورٹ بھی چھوڑ آتے تھے۔“
پھر فوجی حکومت کے دباؤ کی وجہ سے دی مسلم نے ایک سو کے قریب کارکنوں کو برطرف کر دیا۔ فوج نے انہیں باہر نکالنے کیلئے باقاعدہ فوجی دستے بھیج دیئے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی جو اس وقت دی مسلم یونین کے صدرتھے، بتاتے ہیں کہ برطرف کئے گئے کارکنوں کے ساتھ سڑکوں پر احتجاج کرنے والوں میں سلیم عاصمی بھی شامل تھے۔
عاصمی صاحب ان صحافیوں میں شامل تھے جنہوں نے سخت سنسر شپ اور اردو روزنامہ مساوات سمیت متعدد اخبارات کی بندش کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے گرفتاری کا سامناکیا۔ لاہور کی ایک فوجی عدالت نے انہیں سخت مشقت کی سزا سنائی۔ عاصمی صاحب کو ناصر ملک سمیت دیگر افراد کے ہمراہ ملتان جیل میں سزا ہوئی۔
جب مشقت کرتے ہوئے ناصر ملک کے ہاتھ سے خون بہنے لگا تو ہسپتال بھیجے جانے کی لالچ میں انہوں نے جیلر کواپنا زخم دکھانے کی کوشش کی۔ عاصمی صاحب نے ایسا کرنے سے منع کر دیا اور کہا کہ ”سینئر صحافی جیل گئے ہیں اور سخت مشقت کی ہے۔ کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ تم ایک زخم سے خوفزدہ ہو گئے ہو، کہاں ہیں تمہارے اصول؟“
رہا ہونے کے بعد، عاصمی صاحب خلیج ٹائمزسے منسلک ہو گئے۔ نیویل پارکر اور جوزف نیلری (دبئی میں مقیم ان کے سابقہ کولیگز) نے لکھا: ”آج بھی وہ ہمیں ناک پر متوازن چشمے کے ساتھ آدھی رات کو پرنٹنگ کیلئے جانے سے قبل صفحات کو پڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔“ (بحوالہ: معروف پاکستانی ایڈیٹر سلیم عاصمی کی وفات پر ساتھیوں کا سوگ، 2 نومبر، 2020ء)
ڈان کے ایڈیٹر کی حیثیت سے، عاصمی صاحب کا سب سے اہم کام یہ تھا کہ انہوں نے ثقافت، فن اور کتابوں کے لئے ایک باقاعدہ میگزین شروع کرایا اور یوں ڈان کو ایک بھرپور اخبار بنا دیا۔ نومبر 2001ء میں حامد میر کی طر ف سے کیا گیا اسامہ بن لادن کا انٹرویو، حامد میر کا اپنا اخبار ”اوصاف“ شائع کرنے سے گریزاں تھا، تب انہوں نے دوسرے اخبار کے عملے کی اہم خبروں کی اشاعت کا ایک بے مثال قدم اٹھایا۔
حامد میر نے ٹویٹ کیا کہ ”میں نے یہ خبر ڈان کو دے دی۔ مشرف حکومت نے اسے روکنے کی کوشش کی۔ ڈان کے ایڈیٹر سلیم عاصمی نے مجھ سے اپنا فون بند کرنے اور غائب ہونے کو کہا۔ انہوں نے خود ہی اسے سنبھالا“۔
2003ء میں عاصمی صاحب کی ریٹائرمنٹ کی افواہیں پھیل گئیں کیوں کہ ان کے فیصلے اونچی جگہوں پر تکلیف کا باعث بن رہے تھے، جس کے بارے میں انہوں نے کبھی بات نہیں کی۔ سوشل میڈیا کے عروج کے ساتھ ہی وہ ایک شوقین صارف بن گئے۔ ان کے ہزاروں فیس بک دوستوں میں درجنوں نوجوان صحافی اور فنکار شامل ہیں جن کی انہوں نے سرپرستی اور رہنمائی کی۔
انہوں نے اس پلیٹ فارم کو اپنے دل سے قریب مقاصد، انسانی حقوق اورمعاشرتی انصاف کو فروغ دینے کیلئے استعمال کیا، حتیٰ کہ حساس مسائل جیسے بلوچستان اور دائیں بازو کی بنیاد پرستی سے متعلق بھی اس پلیٹ فارم کو بھرپور استعمال کیا۔ ایسی ہی ایک پوسٹ کے نتیجے میں ان کا اکاؤنٹ مختصر طور پر 2015ء میں معطل کر دیا گیا تھا۔
انہوں نے ٹویٹر کے ساتھ مختصر طور پر چھیڑ چھاڑ کی لیکن پاس ورڈ کھو جانے اور اسے ترک کرنے سے پہلے کچھ ٹویٹس اور کچھ ردعمل سے آگے نہیں بڑھ پائے لیکن ان کا ٹوئٹر تعارف سب کچھ کہتا ہے: ”مارکسسٹ، فیمنسٹ، اینیمل لوور“۔
ڈان چھوڑنے کے بعد، عاصمی صاحب ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ساتھ سرگرم ہو گئے۔ ایچ آر سی پی کی بانی عاصمہ جہانگیر نے اس سے قبل آئی اے رحمن اور عزیز صدیقی کو بطور شریک ڈائریکٹر بھرتی کیا تھا۔ انہوں نے شریک چیئر پرسن ایچ آر سی پی سندھ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور کراچی دفتر قائم کیا۔
اتفاقی طور پر، زہرہ یوسف جو 1982ء میں، جب میں دی اسٹار میں انٹرن تھی، میری پہلی ایڈیٹرتھیں اور بعد میں ایچ آر سی پی سندھ میں شریک چیئر پرسن بھی تھیں، جب وہ اور انکے اہل خانہ میرے آبائی علاقے کے قریب فریئر ٹاؤن میں عاصمی صاحب کی ہمسایہ ہو گئیں۔ سیرامک پلیٹس اور ان کے مشترکہ بیرونی دیوار پر پوٹ دار پودوں کا ایک سبز جنگل زائرین کا استقبال کرتا تھا، یہ گھرعام دوستوں کے لئے ہمیشہ باہیں کھولے منتظر رہتا۔
خاص طور پر عاصمی صاحب کا فلیٹ صحافیوں، فنکاروں اور موسیقی اور ثقافت سے محبت کرنے والوں کے لئے ایک مسکن تھا۔ آئی اے رحمن کراچی کے دوروں پر آتے تو اپنی شام وہاں گزارتے۔ زہرہ بھی شامل ہوتیں اور زبردست گفتگو ہوتی، خوب محفل جمتی۔ ذرا سوچئے صحافت اور انسانی حقوق کے ایسے سرگرم اور روشن ستاروں کا ایک جگہ جمع ہونا کتنا دلکش تصور ہے۔
ریسٹ ان پاور عاصمی صاحب۔ آپ کے بغیر پاکستان اور بھی تہی دامن ہو گیا ہے۔
بشکریہ: دی نیوز آن سنڈے