عمار علی جان
جس طرح سے اسٹیبلشمنٹ نواز صحافی اسرائیل کے لئے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس سے تو واضح ہے کہ ریاست اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی طرف جا رہی ہے۔
کئی دہائیوں تک مسلم امہ اور جہاد کا چورن بیچنے کے بعد، معیشت تباہ کرنے کے بعد، ہزاروں زندگیاں گنوا دینے کے بعد، ہمارے ملک کا نام بدنام کرنے کے بعد اب ہمیں کہا جا رہا ہے کہ ”حقیقت پسندی“ کا مظاہرہ کیا جائے۔ کہا جا رہا ہے کہ ریاستیں صرف اپنے مفادات دیکھتی ہیں اور اب ریاست کا مفاد اسی میں ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے۔
ہمیں یہ نہیں بتایا جا رہا ہے کہ اتنے سالوں تک فلسطین پر اسرئیلی غلبے کو کیوں تسلیم نہیں کیا گیا؟ جب ہمیں کہا جا رہا تھا کہ ہمیں ہر قیمت پر فلسطینیوں (اور کشمیروں) کا ساتھ دینا ہے تو اسٹیبلشمنٹ کس کے مفادات کا تحفظ کر رہی تھی؟
سچ تو یہ ہے کہ ہم نے اہل فلسطین کے لئے کبھی کوئی موقف نہیں اپنایا۔ ہمارا موقف عرب بادشاہتوں کو خوش کرنے کے لئے تھا کیونکہ اس وقت یہ عرب سلطان فلسطین کا واویلا کر رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل ضیا الحق نے بلیک ستمبر کے دوران فلسطینیوں کے خون سے اس وقت ہولی کھیلی جب وہ اردن کے شاہ کے خلاف بغاوت پر اتر آئے تھے۔
اب ان عرب سلطانوں اور ان کے پشت پناہوں کو لگتا ہے کہ فلسطین کے نام پر جذبات کو نہیں بھڑکایا جا سکتا لہٰذا انہوں نے اہلِ فلسطین کو نیتن یاہو کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے جو ایک رائٹ ونگ، خون کا پیاسا جنونی ہے۔ بخشش پر پلنے والا پاکستان کا حکمران طبقہ، وفادار غلاموں کی طرح اپنے عرب مالکوں کی نقل کرنے کے لئے بے چین ہوا جا رہا ہے۔ انکا اتنا بڑا یو ٹرن دیکھ کر تو میکاولی بھی شرما جائے۔
یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ ریاستوں کے کوئی اصول نہیں ہوتے، بس مفادات ہوتے ہیں۔ عظیم رہنما ہمیشہ یہ ذہن میں رکھتے ہیں کہ ان کے اقدامات کے نتیجے میں دنیا میں انصاف کو فروغ ملے گا یا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہمارے ہاں ریاست کسی کو غدار قرار دیتی ہے تو ہمارا خون کھول اٹھنا چاہئے۔
ہمارے حکمران نہ صرف وقتی مفادات کے لئے اصولوں کا سودا کرتے ہیں بلکہ اپنے شہریوں کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈالتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ریاست کے مفادات کا خیال کبھی بھی نہیں رکھا گیا، ہمیشہ حکمران طبقے کا مفاد ہی مقدم رہا۔
مسلم دنیا میں قائم امریکہ نوازآمریتوں نے فلسطین سے کئی بار دھوکا کیا مگر اہل ِفلسطین نے پھر بھی شاندار مزاحمت کی روایات قائم کیں۔ اہلِ فلسطین کے دل سے آزادی کی تڑپ ختم نہیں کی جا سکی۔ انہوں نے ہمیں مسلسل یہ سکھایا ہے کہ بدترین جبر کے سامنے بھی کیسے سینہ سپر رہنا ہے۔ ان کی جدوجہد سے دنیابھر میں آزادی پسند لوگ ولولہ حاصل کرتے ہیں۔
ہمارے اخلاق سے عاری حکمران کچھ بھی کریں، پاکستان کے عوام اسرائیلی استبداد کے خلاف فلسطینی جدوجہد کا ساتھ دیتے رہیں گے۔