حارث قدیر
مراکش نے بھی اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے کا معاہدہ کر لیا ہے۔ امریکہ نے بدلے میں مغربی صحارا پر مراکش کے قبضے کو تسلیم کر لیا ہے، جس کے بعد اس علاقے میں آزادی کے خواہشمندوں کی امیدیں دم توڑ گئی ہیں اور اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ریفرنڈم کے انعقاد کا راستہ بھی مخدوش ہو گیا ہے۔
مراکش چوتھا عرب ملک ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ اس سے قبل متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان بھی اسرائیل سے تعلقات کے معاہدے طے کر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ ابھی بھی مغربی صحارا کی آزادی کے لیے ریفرنڈم کی نگرانی کرنے کا پابند ہے۔ اقوام متحدہ نے 1991ء میں مغربی صحارا میں اپنا مشن قائم کیا تھا اور اقوام متحدہ کی ثالثی میں اس شرط پر جنگ بندی ہوئی تھی کہ ایک سال کے اندر یہاں ریفرنڈم کروایا جائے گا لیکن تاحال یہ ریفرنڈم عمل میں نہیں لایا گیا اور نہ ہی اقوام متحدہ نے امریکہ اور دیگر طاقتور ملکوں کی مرضی و منشا کے خلاف کبھی کوئی ریفرنڈم کروایا ہے۔
ریفرنڈم نہ ہونے کی وجہ سے مراکش اور پولیساریو فرنٹ کے مابین مذاکرات طویل عرصے سے تعطل کا شکار ہیں اور اس کے بغیر ایک نئی آزاد ریاست کا قیام ممکن نہیں۔ مراکش کے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور امریکہ کے مغربی صحارا پر مراکش کے قبضے کو جائز قرار دینے کے اقدام سے ایک آزاد مغربی صحارا کیلئے جدوجہد کرنے والوں کو ایک دھچکا لگا ہے۔
مغربی صحارا کا متنازع علاقہ ماضی میں ہسپانوی نو آبادیات کا حصہ رہا ہے۔ پولیساریو فرنٹ کے حمایتی اس خطے کو ایک آزاد ریاست بنانا چاہتے ہیں لیکن اب امریکہ نے اس علاقے پر مراکش کا قبضہ تسلیم کر لیا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے ٹویٹ میں لکھا کہ ”آج ایک اور تاریخی پیشرفت…ہمارے دو عظیم دوست اسرائیل اور مراکش مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے پر رضا مند ہو گئے ہیں۔ یہ مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے ایک بڑی پیشرفت ہے۔“
ایک اور ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے لکھا کہ ”مراکش نے امریکا کو سنہ 1777ء میں تسلیم کیا تھا اور یہ بات مناسب ہے کہ ہم مغربی صحارا میں اس کی خودمختاری کو تسلیم کر رہے ہیں۔“
وائٹ ہاؤس کے مطابق ٹرمپ اور مراکش کے بادشاہ نے مراکش اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات کو دوبارہ شروع کرنے اور علاقائی استحکام کو آگے بڑھانے کے لیے معاشی اور ثقافتی تعاون کو بڑھانے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔
معائدے کے مطابق رباط اور تل ابیب میں فوری طور پر رابطہ دفاتر کھولے جائیں گے جبکہ مراکش اسرائیل کے لیے براہ راست پروازوں کا آغاز بھی کرے گا۔
وائٹ ہاوس کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ”صدر نے مغربی صحارا میں مراکش کے اختیار کو بھی تسلیم کرلیا ہے۔ صدر نے مراکش کو اپنے تعاون اور مغربی صحارا میں حقیقت پر مبنی اختیار کی تجاویز کی حمایت کا یقین دلایا جو پائیدار ہو گی۔“
مراکش میں شاہی محل سے جاری بیان میں اس معائدے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا کہ بادشاہ محمد ششم نے امریکی صدر ٹرمپ سے ٹیلیفون پر بات میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔
واضح رہے کہ امریکی دباؤ کی وجہ سے عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اس تسلسل میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان پر بھی امریکہ اور سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ بظاہر تو سعودی عرب نے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کیلئے فلسطینی ریاست کے قیام سے مشروط کیا ہے اور ایسا ہی بیان پاکستان کے وزیراعظم کی جانب سے بھی سامنے آیا ہے لیکن مختلف میڈیا ذرائع پس پردہ جاری کوششوں سے متعلق بھی خبریں دے رہے ہیں۔
مراکش کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے مغربی صحارا پر قبضہ جائز قرار دلوانے کے بعد یہ خدشات بھی بڑھ گئے ہیں کہ سی پیک کے داخلی راستے گلگت بلتستان کو پاکستان کا آئینی حصہ بنائے جانے پر امریکی اعتراضات کے خاتمے اور سی پیک کی راہ میں امریکی رکاوٹیں ختم کرنے جیسی شرائط پر پاکستان کی جانب سے بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا قدم اٹھایا جا سکتا ہے۔