پاکستان

تعلیم‘ تبدیلی سرکار کے نشانے پر!

اویس قرنی

پاکستان کی معیشت شدید بحران میں مسلسل دھنستی چلی جا رہی ہے اور ایسے میں تمام تر امیدوں کا محور آئی ایف کی امداد کوبنا دیا گیا ہے۔ حالیہ بجٹ کی تمام تر واردات آئی ایم ایف کے اشاروں کے مطابق ہی ترتیب دی گئی ہے۔ لیکن آئی ایم ایف جب کبھی کسی ملک کی ’امداد‘ کے لیے وارِد ہوتاہے تو درحقیقت وہاں کے لاکھوں کروڑوں محکوموں پر زندگی مزید تنگ ہوجاتی ہے۔ مصر اور افریقہ کے کئی ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ خود پاکستان کی تاریخ بھی اس حقیقت کی غمازی کرتی ہے۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے پاکستانی معیشت پر کیا اثرات پڑیں گے اس سلسلے میں پہلے ہی کافی کچھ بیان کیا جا چکا ہے اور اس پر مزید بھی لکھا جائے گا۔ لیکن حالیہ حکومت سب سے شدید حملے صحت اور تعلیم کے شعبے میں کرنے کی طرف جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں پہلے ہی ہسپتالوں کی نجکاری کا عمل شروع ہو چکا ہے۔

تعلیم کے حوالے سے ایچ ای سی کے بجٹ میں بے دردی سے کٹوتیاں کی گئی ہیں۔ 12 جون کو پیش کیے گئے بجٹ میں تعلیم کا بجٹ محض 29.047 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ جس میں سے 24.887 ارب روپے پہلے سے چلنے والی سکیموں کے لئے مختص کیے گئے ہیں جبکہ نئے پراجیکٹوں کے لئے صرف 4.16 ارب روپے کی شرمناک رقم رکھی گئی ہے۔ تبدیلی سرکار سے پیشتر گزشتہ برس کے وفاقی بجٹ میں تعلیم کی مد میں 111 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔

حکمرانوں کا تعلیم کی طرف سنجیدگی کا اندازہ حالیہ بجٹ سے لگانا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے۔ وفاقی بجٹ سے پیشتر ہی یہ عندیہ دیا جا چکا تھا کہ میں ایچ ای سی کے ترقیاتی بجٹ میں 50 فیصد تک کی کٹوتیاں کی جائیں گی جس کا مطلب ہے کہ ایچ ای سی کے مستقبل کے بیشتر پروگرامات معطل کر دیے جائیں گے، اندرون و بیرونِ ملک سکالر شپس کا خاتمہ ہوگا، ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے نئے اہداف کے لیے کوئی امداد نہیں ملے گی۔ تمام سرکاری تعلیمی اداروں کے اعلان کردہ پروگرام معطل کر دیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ 10سے 15 فیصد کی کٹوتیاں ایسی ہوں گی جن کا ہدف سرکاری یونیورسٹیوں کے روزمرہ کے معاملات اور پہلے سے چلنے والے پروگرام ہوں گے۔ لیکن بجٹ میں تو ان خدشات سے بھی کہیں زیادہ بھیانک کٹوتیاں عمل میں لائی گئی ہیں۔ وفاقی تعلیمی بجٹ تقریباً تین چوتھائی تک سکڑ چکا ہے۔

ایسی صورتحال میں اخراجات پورے کرنے کے لئے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو رنگین مشورے دیے جا رہے ہیں۔ لیکن آخری تجزیے میں فیسوں میں ہی کئی گنا اضافہ ہوگا۔ پہلے ہی ہر سال فیسوں میں تقریباً 10 فیصد کا سرکاری اضافہ ہوتارہاہے اور اب اگر یہ بجٹ کٹوتیاں فیسوں میں دیوہیکل اضافے کا موجب بنیں گی۔ 10سے 15فیصد کٹوتی کا مطلب یہ نہیں کہ فیسیں بھی 10سے15فیصد بڑھانے سے معاملات حل ہوجائیں گے۔ ایچ ای سی کے بجٹ میں یہ کٹوتیاں کئی یونیورسٹیوں کی فیسوں میں اپنا اظہار 100 فیصد اضافے کی شکل میں بھی کرسکتی ہیں۔ ہاسٹل اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات جو پہلے ہی مہنگی اور ناگفتہ بہ ہیں‘ مزید مہنگی اور خراب ہوجائیں گی۔

پاکستان میں پہلے ہی آبادی کا نہایت ہی قلیل حصہ یونیورسٹیوں تک رسائی رکھتا ہے۔ 195 ممالک کی لسٹ میں صرف 14 ممالک ہی ایسے ہیں جو تعلیم پر پاکستان سے کم خرچ کرتے ہیں۔ جن میں جنگ سے تباہ حال مشرقِ وسطیٰ کے ممالک اور افریقی صحرائی خطے شامل ہیں۔ ان نئی پالیسیوں کا نشانہ پھر محنت کش طبقے کی اولادیں ہی بنی ہیں جن پر تعلیم کے حصول کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کر دیے گئے ہیں۔

پاکستان میں یونیورسٹی تک پہنچنے والے طلبہ کا تعلق زیادہ تر متوسط طبقات (جن میں زیادہ تر سرکاری ملازمین ہیں) سے ہے۔ محنت کشوں کی اولادیں تو کالج تک ہی نہیں پہنچ پاتیں اور امرا و اشرافیہ کی نسلیں تو بیرون ملک پروان چڑھتی ہیں۔ ایسے میں تعلیمی بجٹ میں کٹوتیوں سے ہونے والے فیسوں میں اضافے اور تنخواہوں میں اضافے کے مابین ایک وسیع خلیج ہے۔ دراصل تنخواہیں بڑھنے کے برعکس مہنگائی کے تناسب میں کہیں زیادہ سکڑ چکی ہیں اور اس سے بڑھ کر ٹیکسوں کی شرح بھی بڑھ گئی ہے جس سے پہلے نسبتاً بہتر زندگی گزارنے والوں پر بھی حالات تنگ کر دیے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ تعلیمی ادارے کی بیشتر ملازمتوں میں چھانٹیاں عمل میں آئیں گی جس کا سب سے بڑا نشانہ اساتذہ بنیں گے۔ اساتذہ سمیت دیگر عملے کی برطرفیاں بھی عمل میں لائی جائیں گی، تنخواہوں میں بے رحم کٹوتیاں کی جائیں گی اور تنخواہ کے علاوہ سہولیات چھینی جائیں گی۔ کم آمدن پھر اساتذہ کو ٹیوشن جیسی کاروباری نفسیات میں غرق ہونے پر مجبور کرے گی۔ اخراجات پورے کرنے کے لئے ایک ہی انسان کو کئی کئی نوکریاں کرنی پڑیں گی جن میں انسان خود خرچ ہو جاتا ہے۔

ویسے تو پاکستانی معاشرے میں خواتین کے روزگار کے مواقع نہایت ہی قلیل ہیں لیکن جن دوشعبوں، صحت اور تعلیم، میں خواتین کی کثیر تعداد ملازمت رکھتی ہے ان میں کٹوتیوں اور برطرفیوں کے ذریعے خواتین سے باعزت روزگار کے مواقع بھی چھینے جا رہے ہیں۔

ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں کو احکامات جاری کردیے ہیں کہ خیرات اور بھیک کے ذریعے اپنے اخراجات کا بندوبست کیا جائے۔ عمران خان کی سوچ بھیک سے آگے جا بھی نہیں سکتی کیونکہ ساری زندگی اُس نے بھیک کا کاروبار ہی کیا ہے۔ ایسے میں اگر تعلیمی ادارے خیرات اکٹھی کرنے میں جُٹ جائیں گے تو پھر تدریسی عمل کا کیا ہو گا؟ اور پھر مالدار افراد اور ملٹی نیشنل کارپوریشنیں جب بھیک دیں گے تو پھر بورڈ آف ٹرسٹیز میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کرتے ہوئے اپنے کاروبار اور منافع جات میں بڑھوتری ہی ان کا اولین مقصد ہو گا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ تعلیمی ادارے علم و آگاہی کی بجائے ان مالدار افراد کے کاروباروں کی وسعت اور ترویج کے لئے خدمات پیش کریں گے اور یونیورسٹیاں مختلف برانڈز کی آؤٹ لیٹ بن جائیں گی۔

ملٹی نیشنل کمپنیوں کی فنڈنگ پر ریسرچ عمل میں لائی جائے گی اور نوجوانوں کے تخلیق کردہ خیالات سے منڈی میں اربوں کے منافع بٹورے جائیں گے۔ یہ بھی کوئی نیا عمل نہیں ہے۔ گوگل، مائیکروسافٹ اور دیگر دیوہیکل ملٹی نیشنل کمپنیاں دہائیوں سے یونیورسٹی طلبہ کی تخلیق پر اپنے پیٹنٹ رائٹس ثبت کرتی آرہی ہیں اور منافعے بٹور رہی ہیں۔ یہی سرمایہ داری ہے۔ لیکن پاکستان میں تو اس لوٹ مار کی کھلم کھلا دعوتیں دی جا رہی ہیں۔ جبکہ یہاں کا تعلیمی نظام عالمی منڈی کے معیارات سے کافی نیچے ہے۔

علاوہ ازیں ایچ ای سی کی ملی بھگت سے یونیورسٹی انتظامیہ ایک نئی واردات میں مصروف ہے جس کے تحت یونیورسٹیوں میں ایم فِل اور پی ایچ ڈی کے متعدد پروگراموں کو معطل کر دیا گیا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں سکالر شپس میں کمی لائی جا رہی ہے اور دوردراز کے علاقہ جات سے تعلیم کے حصول کی خاطر نکلے نوجوانوں کی نشستوں اور کوٹوں کی تعداد میں کمی کی جارہی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں بلوچستان وپختونخواہ سے آئے نوجوان کئی ہفتوں سے انتظامیہ کے ان ہتھکنڈوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ بلوچستان، فاٹا، گلگت، کشمیر اور ایسے علاقہ جات جہاں تعلیمی ادارے سرے سے ہی ناپید ہیں مجبوراً نوجوانوں کو تعلیم کے حصول کے لئے بڑے شہروں کی طرف سفر کرنے پر مجبور کرتے ہیں جہاں تعلیمی اداروں میں ان علاقوں سے آنے والوں کے لئے مخصوص نشستیں اور سکالر شپ مختص ہوتے تھے۔ جب کبھی کسی ایک نشست کی کمی ہوتی ہے تو یہ محض ایک نشست، ایک فرد یا خاندان نہیں بلکہ اس علاقے میں رہنے والے سینکڑوں باسیوں کی حق تلفی ہوتی ہے۔

پہلے پنجاب یونیورسٹی میں ایک کلاس کی مد میں ایک کوٹہ نشست بلوچستان کے لئے مختص تھی۔ حالیہ حکومت نے یہ تناسب ایک پروگرام پر ایک نشست تک محدود کردیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے جو بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو 150 نشستیں ملتی تھیں اب محض 53 رہ جائیں گی۔ دیگر علاقوں کے لئے بھی مختص نشستوں پر ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں اس طرح وار کیا جا رہا ہے۔

مفت اور معیاری تعلیم کا حصول ہر بچے اور بچی کا بنیادی آئینی حق ہے۔ پسماندہ علاقہ جات میں ہی تعلیمی انفراسٹرکچر تعمیر ہونا چاہیے تاکہ کسی کو تعلیم کے حصول کے لیے گھر بدر نہ ہونا پڑے۔ لیکن اس حکومت نے گھر کے پاس تعلیم کیا دینی تھی اُلٹا جو تھوڑی بہت سہولیات گھروں سے سینکڑوں کلومیٹر دور پسماندہ علاقوں کے نوجوانوں کو میسر تھیں‘ وہ بھی چھینی جا رہی ہیں۔

پاکستان میں پہلے ہی آبادی کی ایک وسیع اکثریت تعلیم کی روشنی سے محروم ہے۔ ڈھائی کروڑ سے زیادہ بچوں کا سکولوں سے باہر ہوناایک پوری نسل کا مستقبل سڑکوں پر خوار کرنے کے مترادف ہے۔ تعلیم کے درجات میں طالب علموں کی چھانٹی مسلسل جاری رہتی ہے اور ایک قلیل تعداد ہی کالج تک پہنچتی ہے اور پھر اس کا بھی صرف 9 فیصد یونیورسٹیوں تک پہنچ پاتا ہے۔ اوراب حکمران سر توڑ کوشش کر رہے ہیں کہ یہ تعداد بھی صرف اشرافیہ اور سرمایہ داروں کی اولادوں تک محدود ہوجائے۔ اس تبدیلی سرکار نے وزیر اعظم ہاؤس سمیت بیشتر نئی یونیورسٹیاں بنانے کا ااعلان کیا تھا لیکن ایچ ای سی کے بجٹ میں 50 فی صدسے بھی زیادہ کی کٹوتیاں ان کی عوام دشمن اور منافقانہ روش کا اظہار ہے۔

لیکن یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا سامراج اور اس کی پروردہ یہ حاکمیت سب کچھ آسانی سے کر پائے گی؟ یہاں چند ماہ قبل ہی نوجوان فیسوں میں 10 فیصد اضافے کے خلاف ایک لڑائی جیت چکے ہیں جس میں اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی کے طلبہ کی جدوجہد کی درخشاں مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ وہ اتنی آسانی سے فیسوں میں اس دیوہیکل اضافے کو قبول نہیں کریں گے۔

پنجاب میں پہلے ہی لیکچررز ایسوسی ایشن سراپا احتجاج ہے اور تنخواہوں میں اضافے کے مطالبات کے ساتھ بے مثال دھرنے دی چکی ہے۔ اساتذہ بھی اتنے آرام سے یہ چھانٹیاں اور کٹوتیاں برداشت نہیں کریں گے۔ لیکن فیصلہ سازی میں طلبہ کی شمولیت اور طلبہ یونین کی بحالی کی لڑائی کو ان طلبہ دشمن اقدامات کے خلاف ملک گیر مزاحمت سے جوڑتے ہوئے ہی آئی ایم ایف کی سامراجیت اور مقامی حکمران طبقے کی عوام دشمنی کو شکست فاش دی جا سکتی ہے۔

Awais Qarni
Website | + posts

اویس قرنی ’ریولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ‘ کے مرکزی آرگنائزر ہیں اور ملک بھر میں طلبہ کو انقلابی نظریات پہ منظم اور متحرک کرنے میں سرگرم عمل ہیں۔