پاکستان

پاکستانی زیر انتظام کشمیر: خود رو تحریکیں جنم لے رہی ہیں

التمش تصدق

نام نہاد آزاد کشمیر قومی جبر کے ساتھ بدترین معاشی جبر کا شکار ہے۔ انفراسٹرکچر کی خستہ حالی، بے روزگاری، مہنگائی، لا علاجی، تقسیم اور نیو کلونیل تسلط نے اس خطے کے باسیوں کی زندگیوں کو غذاب مسلسل میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ اس خطے کی غالب سیاست عوامی مسائل سے مکمل بیگانی ہے۔ پاکستان نواز سیاسی جماعتوں کو عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ ان کا اقتدار عوامی حمایت سے نہیں بلکہ اپنے آقاؤں کی وفاداری سے مشروط ہے۔ اقتدار کی سیاست کرنے والے سیاست دان اجتماعی مسائل کو انفرادی طور پر حل کرنے کے وعدوں پر ووٹ لیتے ہیں۔ وعدے بھی وہ جو کبھی وفا نہ ہوئے اور نہ ہی اس نظام میں ہو سکتے ہیں۔

دوسری طرف مذاحمتی سیاست ہے جو سامراجی تسلط اور جبر کے خلاف ہے لیکن واضح نظریات کی عدم موجودگی کی وجہ سے سامراجی نظام میں رہتے ہوئے رعایت لینے اور اقوام متحدہ کی قراردادِ کی بنیاد پر آزادی کی بات کرتے ہیں۔ زیادہ تر قوم پرستوں کی سیاست اس نظام کے نمائندہ حکمرانوں کے مختلف اداروں کی طرف سے بنائے گئے قوانین اور قراردادوں کی حمایت یا مخالفت پر مبنی ہے۔ اگرچہ رائج الوقت قوانین کی روشنی میں اکثر وہ درست بھی ہوتے ہیں پر افسوس یہ سماج قوانین کی بنیاد پر نہیں چلتا بلکہ اس طبقے کے طبقاتی مفادات کی بنیاد پر چلتا ہے جو طبقہ قانون بناتا ہے۔

اس نظام کے پیدا کردہ سماجی مسائل حکمران طبقے کی قراردادوں اور قوانین کی بنیاد پر حل نہیں ہو سکتے ہیں۔ قانونی بحثوں میں الجھ کرمزاحتمی سیاست مہنگائی، بیروزگاری، مفت تعلیم اور علاج جیسے حقیقی عوامی مسائل کٹی ہوئی ہے۔ قومی مسئلے کو معاشی مسئلے سمیت دیگر سماجی مسائل سے جوڑ کر اس نظام کے خلاف انقلابی جدوجہد کو منظم نہ کرنے کی وجہ سے محنت کش عوام کا سیاسی جماعتوں پر عتماد ختم ہو رہا ہے جس کا اظہار خود رو تحریکوں کی صورت میں ہو رہا ہے۔ ایک ماہ میں دو مرتبہ آٹے کی قیمتوں میں اضافے نے پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا ہے جس کا اظہار انہوں نے مختلف شہروں میں آٹے کی قیمتوں میں واپسی اور گندم پر سبسیڈی کی کی بحالی کیلئے بارہ سے زیادہ چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہروں اور ہڑتالوں کی صورت میں کیا ہے اور مطالبات کی منظوری تک تحریک کو جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔

یہ احتجاج کسی پارٹی کی کال پر نہیں بلکہ خود رو انداز میں ہوئے اگرچہ اس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان اور قائدین موجود تھے۔

مہنگائی کے خلاف تحریک جس کا ابھی آغاز ہے اس نے بائیں بازو کے اس موقف کو درست ثابت کیا ہے کہ ’معاشی آزادی کے بغیر سیاسی آزادی کی جدوجہد ادھوری ہے‘۔ محنت کش عوام کی اکثریت کو ایسی کسی آزادی کی جدوجہد اور قربانیوں کے لیے تیار نہیں کیا جاسکتا جس میں ان کے بنیادی مسائل کا کوئی حل موجود نہ ہو۔ محنت کشوں کے لیے حقیقی آزادی بنیادی ضروریات زندگی سے آزادی ہے۔ بے روزگاری، غربت، جہالت اور لا علاجی سے آزادی ہے۔ یہ مسائل عوام کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان ضروریات کے حصول کے لیے مشترکہ جدوجہد کے لیے میدان عمل میں اتریں۔ ان مسائل کا سامنا تمام افراد کو نہیں ہے بلکہ محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہے۔ مٹھی بھر امیروں کی اقلیت ان مسائل سے آزاد ہے۔ اس لیے تحریکوں کا کردار ہمیشہ طبقاتی ہوتا ہے ہر تحریک کسی نہ کسی طبقے کے مفادات اور خواہشات کا اظہار کر رہی ہوتی ہے۔ کوئی بھی تحریک غیر جانبدار یا غیر سیاسی نہیں ہو سکتی۔

درمیانی طبقے کے افراد کا بنیادی مسئلہ شناخت کا ہے یہی وجہ ہے وہ قومی مسئلہ کو اولین حیثیت دیتے ہیں اور معاشی مسائل پر آزادی کے بعد مستقبل بعید میں غور کرنے کی بات کرتے ہیں۔ محنت کشوں کو فوراً روٹی کا مسئلہ درپیش ہے جس کے لیے وہ یہ انتظار نہیں کر سکتے کہ اقوام متحدہ آزادی لے کر دے گی اسکے بعد روٹی کے حصول کی جدوجہد کی جائے گی۔

آج رائج سرمایہ دارانہ نظام بھی اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے اور محنت کشوں کو سوائے ذلتوں اور بربادیوں کے کچھ دینے کے قابل نہیں رہا ہے۔ سرمایہ دارنہ نظام کے معاشی اور ریاستی جبر کا شکار محنت کش عوام کی مشکلات اور مسائل میں کرونا وبا نے کہیں گنا زیادہ اضافہ کر دیا ہے۔ حکمران طبقہ اپنے خسارے کو پورا کرنے کے لیے محنت کشوں کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ رہا ہے۔ بلا واسطہ ٹیکسوں کی وجہ سے مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ محنت کشوں سے دو وقت کی روٹی بھی چھینی جا رہی ہے۔ آج کے عہد میں محنت کشوں کے پاس اپنی بقا کے لیے اس نظام کے خلاف مشترکہ جدوجہد کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

محنت کش عوام کی نجات اس نظام کے خلاف طبقاتی بنیادوں پر منظم ہوتے ہوئے اس نظام کی شکست دے کر طبقات سے پاک سماج کے قیام میں ہے۔

Altamash Tasadduq
+ posts

مصنف ’عزم‘ میگزین کے مدیر ہیں۔