لاہور (نامہ نگار) روزنامہ ’دی نیوز‘ کے مدیر برائے ادارتی صفحات اور معروف مارکسی دانشور زین العابدین ہفتے کی صبح کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں کرونا کی وجہ سے وفات پا گئے۔ ان کی عمر 49 سال تھی۔
وفات سے ایک ہفتہ قبل صحت کے مختلف مسائل کی وجہ سے انہیں ہسپتال داخل کیا گیا مگر بعد ازاں کرونا کے حملے نے مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔
زین العابدین 2006ء میں دی نیوز سے بحیثیت نائب مدیر برائے ادارتی صفحات وابستہ ہوئے اور بعد ازاں مدیر بنا دئے گئے۔ وہ دس سال سے زائد اسی حیثیت میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔
اس سے قبل وہ ڈیلی ٹائمز اور ڈان کے ساتھ بھی وابستہ رہے۔ ان کی وفات پر صحافتی برادری، انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان، سیاسی کارکنوں، وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
صحافت کے علاوہ زین العابدین کی پہچان ایک مارکسی دانشور کے طور پر تھی۔ بالخصوص کراچی میں بائیں بازو کے حلقوں میں انہیں انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ کراچی یونیورسٹی میں اپنے دور طالب علمی میں بائیں بازو کے ایک کارکن کے طور پر متحرک ہوئے۔ انہوں نے ’ریزنرز‘ کے نام سے طلبہ کی ایک تنظیم قائم کی۔ وہ ٹریڈ یونین تحریکوں میں بھی متحرک رہے۔
انہیں مارکسی تھیوری پر عبور حاصل تھا۔ وہ اپنے کتب بینی کے شوق کی وجہ سے اپنے دوستوں اور ساتھیوں میں جانے جاتے تھے۔ سیاست، تاریخ، اردو اور عالمی ادب کے علاوہ فلسفہ اور صحافت ایسے موضوعات پر گہری دسترس رکھتے تھے۔
انہوں نے دی نیوز میں چند کالم بھی لکھے جنہیں کافی پزیرائی ملی۔ بھگت سنگھ پر لکھے گئے ان کے کالموں نے بائیں بازو کے حلقوں میں خاصی توجہ حاصل کی۔ انہوں نے بہت سے نوجوان ترقی پسند صحافیوں اور کارکنوں کی سرپرستی کی جو انہیں ایک استاد کا درجہ دیتے ہیں۔