قیصر عباس
امریکہ کی لبرل جمہوریت کے تضادات ہفتے کے دن اس وقت پوری طرح سامنے آ گئے جب سینٹ نے سابق صدر ٹرمپ کو دوسری مرتبہ بھی مواخذے سے بری کر دیا۔ پہلے مواخذے میں ٹرمپ کو ملکی انتخابات میں عالمی سطح پر ساز باز کرنے اور صدارتی اختیارات کے غلط استعمال کا الزام تھا لیکن اس بار انہیں امریکی جمہوریت کے ایک بلند قامت ستون پر حملہ کرانے کے سنگین جرم کا سامنا تھا۔
مواخذے کی منظوری کے لئے سینٹ کے کل 100 ارکان کی دو تہائی اکثریت کی ضرورت تھی جو حاصل نہ ہو سکی اگرچہ ڈیموکریٹک پارٹی کے تمام ارکان کے علاوہ حزب اختلاف رپبلکن پارٹی کے 7 ارکان نے بھی مواخذے کے حق میں ووٹ ڈالے۔
جمہوری نظام میں تضاد کی انتہائی شکل تو یہ تھی کہ حزب اختلاف کے رہنما مچ مکانل نے احتساب کے خلاف ووٹ دیا لیکن اپنی اختتامی تقریرمیں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ کیپٹل پر حملے کی ذمہ داری سابق صدر ٹرمپ ہی پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک شرمناک عمل تھا لیکن انہیں امید ہے کہ امریکہ کا عدالتی نظام اس کا بہترفیصلہ کرے گا۔ اسے کہتے ہیں نیر نگی ِسیاستِ دوراں!
اس سے پہلے امریکی تاریخ میں ایک ہی صدرکے خلاف دو مواخذے کبھی نہیں ہوئے تھے۔ صدر ٹرمپ پر 6 جنوری کو کانگریس کی عمارت پر حملے کے لئے اپنے حامیوں کو اکسانے کا سنگین الزام عائد کیا گیا تھا۔ یہ پرتشدد حملہ اس وقت عمل میں آیا تھا جب کانگریس ملک کے صدارتی انتخاب کو آخری شکل دے کر جو بائیڈن کی اکژیت کی منظوری دے رہی تھی۔ حملے میں سکیورٹی کے عملے اور بلوائیوں کے 5 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
کہا جا سکتا ہے کہ رجعت پسند رپبلکن پارٹی آج کل نظریاتی افراتفری اور سیاسی دیوالیے کا شکار ہے۔ 2016ء کے انتخاب میں ٹرمپ، جو پارٹی کا حصہ نہیں تھے، ایک طوفان کی طرح داخل ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پارٹی کے سیاسی افق پر پوری طرح چھا گئے۔ صدارتی انتخاب میں کامیابی کے بعدانہوں نے پور ی پارٹی پر اپنی گرفت اور بھی مضبوط کر لی چونکہ ان کے پاس اب ایک بڑا ووٹ بینک موجود تھا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اب جب کہ ٹرمپ صدارتی انتخابات ہار چکے ہیں اور اپنی واضح شکست کو نہ مانتے ہوئے انہوں نے اپنے حامیوں کو کانگریس پر حملہ کرنے کی ترغیب بھی دی تھی، رپبلکن پارٹی اب بھی ان کی حمایت پر آمادہ کیوں ہے؟
ٹرمپ اگرچہ اب وائٹ ہاؤس میں نہیں ہیں ان کے پاس اب بھی ایک بڑا ووٹ بینک موجود ہے اور انہوں نے حالیہ صدارتی انتخاب ہارنے کے باوجود 70 ملین سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ پارٹی کے کئی ارکان کے انتخابی حلقوں میں ٹرمپ کے حامیوں کی اکثریت ہے جو آنے والے نصف مدت کے انتخابات میں ان کی قسمت کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
آج کے سیاسی پس منظر میں پارٹی کے یہ ارکان صدر ٹرمپ کے خلاف ووٹ دے کر اپنے ووٹروں کی مخالفت مول نہیں لینا چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ سینٹ میں ر پبلکن پارٹی کے ارکان کی ایک بڑی تعداد نے مواخذے کے خلاف ووٹ دئے۔
کانگریس کے اندر اور باہر رپبلکن پارٹی آج انتہائی درجے کی گروہ بندی میں گرفتار نظر آ رہی ہے جس میں ایک طرف پارٹی کو ایک اصولی فیصلہ کرتے ہوئے ٹرمپ سے نجات حاصل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے اور دوسری طرف پارٹی کے کچھ ارکان کے لیے ٹرمپ ایک سیاسی ضرورت بن چکے ہیں۔
اس دلچسپ صورتحال کے پیش نظر سیاسی پنڈتوں کی نظریں مستقبل قریب پر لگی ہیں یہ دیکھنے کے لئے کہ امریکہ کا سرمایہ دارانہ نظام، لبرل جمہوریت اور اقتصادی مسائل کے تضادات اب اور کیا گل کھلانے والے ہیں؟
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔