لاہور (جدوجہد رپورٹ) سماجی رابطوں کی مقبول ترین ویب سائٹ ’فیس بک‘ نے جمعرات کو اعلان کیا ہے کہ میانمار کے تمام فوجی اکاﺅنٹس اور فوجی زیر انتظام پیجوں کو ویب سائٹ اور انسٹا گرام سے ہٹایا جا رہا ہے۔
فیس بک نے اعلان کیا کہ میانمار کی فوج سے وابستہ کاروباروں کے اشتہارات بھی بند کر دیئے جائیں گے۔
فیس بک نے یہ فیصلہ رواں ماہ یکم فروری کو ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد کیا، جس میں فوج نے منتخب حکومت کو اقتدار سے ہٹا کر سیاسی قیادت کو جیل بھیج دیا تھا۔ فوجی بغاوت کے چند روز بعد ہی میانمار میں فیس بک تک رسائی کو بھی رک دیا گیا تھا، کیونکہ اس کا استعمال فوجی بغاوت کے خلاف تبصرے کرنے اور احتجاجی مظاہرے منظم کرنے کےلئے کیا جا رہا تھا۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق دہائیوں سے میانمار دنیا میں انٹرنیٹ سے سب سے کم منسلک ممالک میں شامل تھا، 2012ءمیں 5 فیصد سے بھی کم آبادی انٹرنیٹ کا استعمال کرتی تھی۔ 2013ءمیں ٹیلی مواصلات کو ڈی ریگولیٹ کرنا شروع کیا گیا تھا جسکے بعد سم کارڈوں کی قیمت میں کمی آئی اور صارفین کی ایک نئی منڈی کھل گئی تھی۔
جنوری 2020ءتک میانمار میں 22.3 ملین سے زیادہ فیس بک صارفین موجود تھے جو آبادی کا 40 فیصدسے بھی زیادہ ہے۔ میانمار میں فیس بک کا ایک اہم کردار بن چکا ہے اور فیس بک عوام کےلئے مواصلات کا سب سے اہم پلیٹ فارم بن چکا ہے۔
امریکی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے گروپوں کے دباﺅ کے تحت 2018ءمیں فیس بک نے میانمار کی فوج سے منسلک 20 افراد اور تنظیموں پر پابندی عائد کر دی تھی جن میں کمانڈر ان چیف من آنگ ہلینگ بھی شامل تھے۔ یہ پابندی انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے عائد کی گئی تھی۔
فوجی بغاوت کے بعد فیس بک نے کہا کہ وہ میانمار کی فوج کے تمام مواد کے پھیلاﺅ کو کم کر دے گا اور نفرت انگیز تقاریر سمیت کمیونٹی سٹینڈرڈز کی خلاف ورزی کرنے والے مواد کو بھی ہٹا دیا جائے گا۔ فیس بک کے اس فیصلے سے میانمار کی فوج کو مواصلات کے سب سے بڑے پلیٹ فارم سے محروم کر دیا گیا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں فیس بک ناقابل بیان حد تک مقبول ہے، فیس بک کا یہ اقدام میانمار کی فوج کےلئے ایک شدید نفسیاتی دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔