لاہور (جدوجہد رپورٹ) محنت کش خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان میں ملک گیر ’عورت آزادی مارچ 2021ء‘ کا انعقاد کیا گیا۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، سب سے بڑے صنعتی شہر کراچی اور پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں بڑے احتجاجی مارچ منعقد کئے گئے۔ ’عورت مارچ‘، ترقی پسند سیاسی جماعتوں اور ٹریڈ یونینز کے زیر اہتمام منعقدہ ملک گیر عورت مارچ میں بائیں بازو کی مختلف تنظیموں، خواتین تنظیموں، این جی اوز اور ٹریڈ یونینوں سمیت مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات نے شرکت کی۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں عورت آزادی مارچ پریس کلب سے شروع ہو کر ڈی چوک تک گیا۔ اس مارچ میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے علاوہ مردوں کی بڑی تعداد بھی شریک تھی۔ شرکا مارچ نے مطالبات سے متعلق پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے۔
لاہور میں عورت مارچ کے شرکا پریس کلب سے پی آئی اے کی عمارت تک گئے جبکہ سندھ کے صوبائی دارالحکومت کراچی میں عورت مارچ کا انعقاد فریئر ہال کے مقام پرکیاگیا۔ اس کے علاوہ مختلف تنظیموں کی جانب سے دیگر شہروں اوربڑے صنعتی شہروں میں محنت کش خواتین کے عالمی دن کے موقع پر دیگر تقاریب، ریلیاں اور جلسے بھی منعقد کئے گئے۔
اسلام آباد میں عورت آزادی مارچ کے انعقاد کیلئے انتظامیہ کی جانب سے این او سی جاری نہ کئے جانے کے باوجود مارچ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں بھی عورت آزادی مارچ کا انعقاد کیا گیا۔
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن اور پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے زیر اہتمام ’محنت کش خواتین کے عالمی دن‘ کے موقع پر تقاریب کا انعقاد کیا گیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی خواتین ونگ کے زیر اہتمام بھی پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں تقاریب کا انعقاد کیا گیا تھا۔ عورت آزادی مارچ کے منتظمین کی جانب سے 15 مطالبات پر مبنی چارٹر آف ڈیمانڈ جاری کیا گیا تھا۔
چارٹر آف ڈیمانڈ میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ بجٹ میں صحت پر خرچ ہونے والے حصے کو جی ڈی پی کے 5 فیصد تک بڑھایا جائے اور خواتین، خواجہ سرا، مخصوص افراد کیلئے اور تولیدی، نفسیاتی اور بحالی صحت کیلئے مختص رقم سے متعلق معلومات فراہم کی جائیں۔ تمام صوبائی حکومتیں تولیدی صحت پر خرچ ہونے والے بجٹ کے حصے سے متعلق معلومات جاری کریں اور خواتین اور صنفی اقلیتوں کو کورونا کے دوران درپیش مسائل سے نمٹنے کیلئے اپنی حکمت عملی واضح کریں۔
شعبہ صحت کی نجکاری کی کوششیں فوری طور پرترک کی جائیں، جو نظامِ صحت کو عوامی خدمت کے منصوبے کی بجائے منافع بخش کاروبار میں تبدیل کرنے کی ہی ایک کوشش ہے۔ تمام افراد کی صحت کی سہولیات تک رسائی کو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
صنفی تشدد صحت کا ہی ایک مسئلہ ہے کیونکہ صنفی تشدد نہ صرف متاثرین کی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کو متاثر کرتا ہے بلکہ معاشرے پر بھی برے اثرات مرتب کرتا ہے۔ حکومت متاثرین کو تشدد کے طویل المدتی اثرات سے نکالنے کیلئے کثیر سرمایہ کاری کرے۔
کیمیائی آختہ کاری ایک غیر مؤثر سزا ہے، جس کی وجہ زنا بالجبر کی و جہ ہوس کو سمجھنا ہے جبکہ اسکی اصل وجہ کسی کا بھی طاقت کے نشے میں چور ہونا ہے۔ ہم اس سزا کو اینٹی ریپ آرڈیننس سے نکالنے اور اس قانون کو قومی اسمبلی سے ضروری ترامیم کے بعد منظور کروانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
کورونا کی عالمی وبا کے دوران دیکھ بھال کا کام بڑھنے کی وجہ سے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ گھر کے کام کو ٹھیکوں کے ذریعے غیر رسمی معیشت کا حصہ بنایا جائے اور خواتین کے اس دیکھ بھال کی معیشت میں اہم کردار کو بھی مزدوری کے زمرے میں لا کر اسے کسی بھی دوسرے کام کے برابر سمجھا جائے۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ قومی وزارتِ صحت اور این سی او سی کی کوروناویکسین پالیسی تمام طبقات، صنفوں، مذہبی اور نسلی اقلیتوں تک ویکسین کی رسائی کو دھیان میں رکھ کر بنائی جائے۔ ہم حکومت سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہر جنس بشمول خواجہ سرا اور مخصوص افراد کیلئے الگ الگ کوروناکے اعداد و شمار جاری کرے۔
ہم زور دیتے ہیں کہ منشیات کی لت میں بحالی کیلئے ایک نقطہ نظر کی ضرورت ہوتی ہے جو جرمانہ کاری اور جسمانی انصاف کے نظام کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ صحت عامہ کے شعبے کو مناسب دیکھ بھال اور دماغی صحت سے متعلق معاونت کے ساتھ منشیات کے عادی افراد کے علاج کیلئے قدم اٹھانا چاہئے تاکہ افراد کو معاشرے میں دوبارہ بازآباد کیا جا سکے۔
ہمارا ماننا ہے کہ شریکِ حیات اور خاندان کا مانعِ حمل ذرائع اور صحت کی سہولیات تک رسائی سے جانتے بوجھتے ہوئے انکار بھی گھریلو تشدد کی ہی ایک قسم ہے۔ ہم طبقاتی اور جغرافیائی محل وقوع سے قطع نظر، تمام افراد کی جدید مانع حمل ذرائع تک رسائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ زندگی میں کام آنے والے ہنر اور رضامندی پر مشتمل تعلیم کو پرائمری اور ثانوی نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ بچوں کو اپنے جسم پر صرف اپنے اختیار کے متعلق سکھایا جا سکے اور اس طرح بچوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے زیادتی کے واقعات میں کمی لائی جا سکے۔
ہم چاہتے ہیں کہ جبری طور پر جنس کو تبدیل کرنے کے طبی طریقہ کاروں کو، بالخصوص ان طریقوں کے ذریعے افراد کو کسی ایک صنف تک محدود کرنے کے عمل کو ایک طرح کے جنسی اور صنفی تشدد کے طور پر دیکھا جائے۔
تمام افراد کی اسقاط حمل کی محفوظ سہولیات اور معلومات تک رسائی اور سب کے پاس جسمانی خود مختاری ہونی چاہیے۔ ماہِ ایام میں استعمال ہونے والی حفظانِ صحت کی مصنوعات پر ٹیکس میں چھوٹ دے کر سب تک ان اشیا کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہئے۔
صحت کے شعبے سے وابستہ افراد کی کام کی جگہوں کو محفوظ بنانا لازم ہے اس لیے ہم پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ آف وومن اِیٹ ورک پلیس ایکٹ کے مطابق شعبہِ صحت کے ہر ادارے میں باضابطہ جنسی ہراسانی کی کمیٹیوں کی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس قانون میں ترامیم کر کے اس قانون اور اس میں موجود ہراسانی کی تعریف کا دائرہ کار مریضوں کے ساتھ ہونے والے ہراسانی اور کام کی جگہ کے باہر نجی اور عومی مقامات تک بڑھانا اس وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ ٹرانس جینڈر اور خواجہ سراؤں کو صحت کی سہولیات تک بلاامتیاز اور مساوی رسائی دی جائے۔ حکومت کو ان افراد سے اچھے برتاؤ کیلئے طبی عملے کی تربیت، غلط صنف کی تشخیص اور طبی عملے میں پائے جانے والے تعصب کے خاتمے کیلئے زیادہ سرمایہ لگانے کی ضرورت ہے۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت پانی اور فضائی آلودگی کو صحت اور ماحول، خاص طور پر پسماندہ اور کمزور یا غیر محفوظ طبقے کیلئے خطرہ قرار دیتے ہوئے ہنگامی حالت کا نفاذ کرے۔ ہمارا ماننا ہے کہ طبی تحقیق کرتے وقت جنس کو ایک متغیر کے طور پر شمار نہ کرنے سے صحت کے اس بحران کی شدت میں اضافہ ہو گا۔ ہم بائیو سٹڈی رولز 2018ء کی شق نمبر 20 کے مطابق ایک ایسی پبلک قومی کلینیکل ٹرائل رجسٹری کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں جو عالمی ادارہِ صحت کے پرائمری رجسٹریوں کے معیار پر پوری اترتی ہو۔