پاکستان

کراچی نالہ متاثرین کا مسئلہ

ذکا اللہ

کراچی ایک ایسا شہر ہے جس کے بارے میں آپ لکھنا شروع کریں تو شاید صفحات کم پڑ جائیں لیکن اس شہر کے مختلف پہلووں کا احاطہ ممکن نہ ہو۔ اس شہر کو شاعروں نے کبھی اپنے کلام سے خراج بخشا تو کبھی ادیبوں نے اس شہر کی ان کہی کہانی لکھ کر اسے خراج پیش کرنے کی کوشش کی۔ مگر "حق تو یہ ہے کے حق ادا نہ ہوا۔” یہ شہر زبردست سیاسی انتشار کے ادوار میں بھی پوری توانائی کے ساتھ کھڑا رہا۔کراچی دنیا کا ساتواں سب سے بڑا شہر ہے، یہ پاکستان کا سب سے بڑا انڈسٹریل شہر اور معاشی حب ہونے کے علاوہ سندھ کا دارالحکومت بھی ہے۔ پاکستان کے ریوینو کا 62 فیصد اور سندھ کے ریوینو کا92 فیصد اس شہر سے پیدا ہوتا ہے۔لیکن جب اس شہر کے انفراسٹرکچر اور بلدیاتی مسائل کے حل کی بات آتی ہے تو ایک سیاسی میوزیکل چیئر گیم کا آغاز ہو جاتا ہے، مقامی حکومت(بلدیاتی) صوبائی حکومت کو اور صوبائی حکومت، وفاقی حکومت کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیتی ہے اور آخر میں تینوں حکومتیں مل کر ان مسائل کا ملبہ اس شہر میں بسنے والی محنت کش عوام کے اوپر ڈال دیتے ہیں ۔ایسا ہی کچھ اگست 2020ء میں ہوا۔

اگست  2020ءکے مون سون میں کراچی میں ایک دن ہونے والی بارش کا 92 ویں سالہ ریکارڈ ٹوٹا جس کے باعث پورا شہر پانی میں ڈوب گیا(اربن فلڈنگ) لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہوا سنہ 2000ء کے بعد سے یہ ساتواں موقع تھا جب مون سون کے سیزن  میں شہر مکمل طور پر پانی میں ڈوب گیا تھا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ 2002ء، 2006ء، 2011ء، 2012ء، 2013ء، 2017ء اور 2020ء تک جاری رہا۔

2012ء کی سیلابی صورتحال کے بعد کی جانے والی ایک اسٹڈی میں دیگر تمام وجوہات کے علاوہ اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث آنے والے سالوں میں مون سون سیزن میں معمول سے زیادہ بارشوں کا خدشہ ہو گا جس کے باعث ہر سال کراچی میں سیلابی صورتحال پیدا ہونے کا خطرہ بڑھتا چلا جائے گا۔اس لئے ضروری ہے کے مون سون سیزن شروع ہونے سے پہلے برساتی اور سیوریج نالوں کی صفائی کا کام مکمل کر لیا جائے۔اگست 2020ء میں مون سون سیزن شروع ہونے سے پہلے کراچی میں نالوں کی صفائی کا کام مکمل نہیں ہو سکا تھا، بلکہ  بلدیاتی اور صوبائی حکومت کے درمیان نالوں کی صفائی کے حوالے سے چپقلش جاری تھی۔جس کے باعث عدالتی حکم پر این ڈی ایم اے کو نالوں کی صفائی کے معاملے پر مداخلت کرنا پڑی۔گو میڈیا میں این ڈی ایم اے کی کارکردگی کو  بڑھا چڑھا کے بتایا گیا ۔لیکن جو لوگ کراچی کے جغرافیہ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کے دس سے  پندرہ دن میں کراچی کے نالوں کی صفائی ممکن نہیں ہے۔کراچی میں 514 نالوں کے علاوہ گجر نالہ،محمود آباد نالہ اور اورنگی نالے کے علاوہ دو مرکزی ندیاں، لیاری ندی اور ملیر ندی ہیں،  جن سے ہوتا ہوا سیوریج کا پانی براہ راست  بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔

لیکن کیا کراچی میں سڑکیں صرف مون سون کے سیزن میں تالاب کا منظر پیش کرتی ہیں۔ کراچی میں پورا سال ہی کام کے سلسلے میں شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جانے والوں کو کسی نہ کسی شاہراہ پر موجود سیوریج کے پانی سے گزر کر اپنے کام کی جگہ پر پہنچنا پڑتا ہے۔کراچی میں روزانہ 450 ملین گیلن سیوریج نکاسی کے لئے نکلتا ہے۔پچھلی ایک دھائی میں شہر کی آبادی میں قابل ذکر اضافے کے باوجود شہر کی سیوریج لائنز  کی بحالی کے لئے کوئی قابل ذکر اقدامات صوبائی یا وفاقی حکومت کی جانب سے نہیں کئے گئے، دوسری طرف ٹاون پلاننگ کے اصولوں کے برخلاف تعمیرات نے شہر کے سیوریج انفراسٹرکچر کو  تباہ کر کے رکھ دیاہے۔دو دہائی قبل جس جگہ ہزار گز کے گھر ہوا کرتے تھے آج وہاں کئی منزلہ عمارتیں قائم ہیں۔لیکن ان علاقوں میں سیوریج کا نظام آج بھی رہائشی پلاٹوں کے مطابق ہے۔کراچی کے تقریباً تمام برساتی نالے اس وقت سیوریج نالوں میں تبدیل ہو چکے ہیں اور اس شہر کے لوگوں کی اکثریت برساتی اور سیوریج نالوں کے درمیان فرق کو تقریباً بھلا چکی ہے کیونکہ شہر کی سیوریج کا آدھا بوجھ ان برساتی نالوں نے اٹھایا ہوا ہےاور اس کے باجود سیوریج کے پانی کو سڑکوں سے گزر کر سیوریج نالوں تک پہنچنا پڑتا ہے اور نشیبی علاقوں میں سیوریج کا یہ پانی گلیوں اور میدانوں میں کھڑا رہتا ہے۔

کراچی میں نکاسی آب میں دوسری سب سے بڑی رکاوٹ اس شہر میں پیدا ہونے والا کچرا (Solid waste) ہے۔ کراچی میں روزانہ  13000 ٹن سے زائد کچرا جمع ہوتا ہے جس کا 70 فیصد ہی سندھ سولڈ ویسٹ مینجمینٹ بورڈ جمع کر پاتا ہے۔ اس کچرے کو بھی کراچی کے سیوریج نالوں کے کناروں پر ڈمپ (Dumped) کیا جاتا ہے جو ان نالوں کے اوپر ایک مضبوط تہہ قائم کرلیتا ہے جس سے اطراف کی آبادی کے بچوں کو کھیلنے کے لئے ایک کھلی جگہ میسر آ جاتی ہے۔جو اکثر حادثات کا باعث بنتی ہے۔لیکن صوبائی اور وفاقی ادارے بضد ہیں کہ 13000 مکانات اور 4000 ہزار چھوٹے کاروباری یونٹ(حکومتی شمارئے) سیوریج کی نکاسی میں حائل ہیں۔حکومتی اور انتظامی سطح پر یہ طے کر لیا گیا ہے کہ ان مکانات اور کاروبار کو مسمار کئے بغیر کراچی میں نکاسی آب کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔کراچی میں ماضی میں بھی ایسے منصوبے بنائے گئے ہیں جس کے باعث ہزاروں افراد کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا لیکن کراچی کے شہریوں کی اکثریت کو ان منصوبوں کے حوالے سے جو سبز باغ دکھائے گئے یہ منصوبے وہ مقاصد حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے  جس میں سر فہرست لیاری ایکسپریس وے کا منصوبہ ہے جو 9۔9 بلین روپے کی لاگت سے تعمیر ہوا  اور جس کا مقصد کراچی پورٹ سے نکلنے والی ہیوی ٹریفک کو براہ راست سپر منتقل کرنا تھا۔لیاری ایکپریس وے کی تعمیر میں 15000 سے زائد مکانات مسمار کئے گئےاور 24 ہزار سے زائد خاندانوں کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا جن میں کئی  آبادیاں تقسیم سے پہلے لیاری ندی کے کناروں پر آباد تھیں۔لیکن پورٹ سے آنے والا ٹریفک آج بھی کراچی شہر کے درمیان سے گزر کر ہی سپر ہائی کے جانب جاتا ہے اور روزانہ اس ٹریفک کی زد کوئی نہ کوئی معصوم شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔۔ اس کے علاوہ ایکپریس مارکیٹ سگنل فری کوریڈور کے ساتھ 650 ملین روپے کی لاگت سے بنایا جانے والا پارکنگ پلازہ آج بھی ویران پڑا ہے اور صدر میں پارکنگ کے مسائل کو حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا۔سگنل فری کوریڈور نے ٹریفک کے دباو کو اسی قدر حل کیا ہے کے اس دباو کو دوسرے نقطے کی جانب منتقل کردیا ہے جس کے لئے لائنز ایریا کے ہزاروں خاندان جبری منتقلی پر مجبور ہوئے۔

آر بی  ٹی (میٹرو) منصوبے کے ڈیزائن پر وزیر اعلی سندھ خود تنقید کر چکے ہیں کے اگست 2020 کی بارشوں میں آر بی ٹی منصوبے کے بیم پانی کے قدرتی بہاو میں رکاوٹ کا باعث بنے جس کے باعث ضلع وسطی کراچی کا شمالی حصہ پانی میں ڈوب گیا ۔ اس کے علاوہ ناکام ترقیاتی منصوبوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ماضی کے ان منصوبوں کے تجزئے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کراچی میں نالوں کی ری اسٹرکچرنگ کے نام پر لاکھوں افراد  کو بے گھر اور بے روزگار کر کے بھی مستقبل میں کراچی کو اربن فلڈنگ سے نہیں بچایا جاسکتا

کراچی میں نالوں کی صفائی کے حوالے سے وزیر اعلی نے جو ٹیکنکل کمیٹی قائم کی ہے اس کے سربراہ ان کے پرانے کلاس فیلو ہیں۔ این ای ڈی کی ٹیکنیکل کمیٹی نے نالوں کے سروے کے لئے گلوبل نیویگیشن سیٹیلائٹ سسٹم (GNSS)مدد حاصل کی ہے اس کے علاوہ ڈرون کیمرے کے فضائی منظر کی مدد سے نالوں اور اطراف کی آبادی کے نقشے تیار کئے ہیں یعنی  اس ٹیکنیکل  کمیٹی نے  نالوں کے اطراف کی آبادی کا فزیکل سروے ہی نہیں کیا اس کے علاوہ این ای ڈی اس ٹیکنیکل کمیٹی کی رپورٹ کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ معلومات ابھی تک عوام کے سامنے نہیں لائی گئی جس کے باعث ان نالوں کے اطراف کی آبادی میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے جب کے ڈرون کی مدد سے بنائے جانے والے نقشوں کے مطابق جب کٹنگ کے کئے فزیکل نشانات لگائے جاتے ہیں توصرف گجر نالے کے  اطراف میں بعض مقامات پر نالے کی چوڑائی 110 فٹ سے بھی تجاوز کر جاتی ہے۔

گجر نالے کے اطراف تقریبا 34 چھوٹی بڑی آبادیاں اس کٹنگ سے متاثر ہو رہی ہیں جس میں 28 آبادیاں کے ایم سی اور سندھ کچی آبادی سے منظور شدہ ہیں اگر حکومت کو عوامی مفاد میں  ان آبادیوں کی زمین درکار تھی تب بھی یہ زمین لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کے تحت واپس لی جانی چاہیے تھی۔جس میں ان تمام لوگوں کو نہ صرف قانون کے مطابق معاوضہ ادا کتنا ہوتا بلکہ تمام قانونی اصولوں کی پیروی بھی کرنی پڑتی،محسوس یوں ہوتا ہے کے صوبائی حکومت اس سارے معاملے میں کسی عجلت کا شکار تھی جس نے تجاوزات کے نام پر قانونی آبادیوں کو بھی غیر قانونی قرار دے دیا۔

حکومت پاکستان گلوبل پلان آف ایکشن آف دی یو این سٹی سمٹ 1996ء کی دستخط کنندہ بھی ہے جو گھروں سے زبردستی انخلاء اور مسماری کے خلاف ہے یوں صوبائی حکومت ان نالوں کے اطراف موجود گھروں سے لوگوں کو زبردستی  بیدخل اور مسمار کر کے یو این چارٹر کی خلاف ورزی کی بھی مرتکب ہوئی ہے۔ اگر کراچی میں نالوں کی چوڑائی کا کام اسی طرح جاری رہا تو تقریبا 60 ہزار سے زائد مکانات کراچی کے نالوں کے اطراف مسمار کئے جائیں گے جس سے لاکھوں افراد نہ صرف اپنے گھروں سے محروم ہونگے بلکہ روزگار سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے جو ان آبادیوں کے اندر اور اطراف کی کاروباری سرگرمیوں جڑا ہے بالخصوص خواتین اور بچے جن کی اکثریت دوبارہ کبھی تعلیمی  اور معاشی  سائیکل  میں داخل نہیں ہو سکیں گے

2019 میں حکومت سندھ اور ورلڈ بینک کے درمیان مختلف معاہدے طے پائے جس میں "کراچی واٹر سروس ایمپرومینٹ پروجیکٹ” جس کے لئے ورلڈ بینک 1۔6 بلین ڈالر کا قرضہ سندھ حکومت کو فراہم کرے گا اس کے علاوہ 230 ملین ڈالر "Competitive And Liveable City Of Karachi” پروگرام کے تحت حکومت سندھ کو فراہم کرے گا اس کے علاوہ دیگر پراجیکٹس کے لئے حکومت سندھ اور ورلڈ بینک کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔ لیکن ان قرضوں کے حوالے سے  طے پانے والے "ٹرم اینڈ کنڈیشنز ” کی تفصیل کہیں موجود نہیں۔یوں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کے کراچی کے نالوں کے اطراف گھروں سے عوام کی بیدخلی اور مسماری ورلڈ بینک کے انہیں پروگرام کا حصہ ہے جس پر شہر کے دعویداروں سے لیکر انصاف کے پہریداروں تک سب کی زبانیں خاموش ہیں۔

یو آر سی کی ایک رپورٹ کے مطابق 1976ء سے لیکر 2003ء تک  حکومت پاکستان نے 1472 ملین ڈالر کا قرضہ شہری ترقیاتی پرگراموں کی مد میں حاصل کیا۔ جس میں 654 ملین ڈالر(44%)کراچی کے ترقیاتی کاموں کی مد میں حاصل کیا گیا۔ان ترقیاتی کاموں کی ایک خصوصیت یہ تھی کے یہ تمام پروگرام کراچی میں بسنے والے شہریوں کی سہولت میں کوئی خاطر خواہ اضافہ کرنے میں ناکام رہے یوں اس شہر میں بسنے والے اور اس شہر کے ترقیاتی منصوبہ بندی کرنے والوں کی ترجیحات میں واضح فرق نظر آتا ہے۔اس لئے یہ سوال اہمیت اختیار کرجاتا ہے کے وہ کون لوگ تھے جو ان ترقیاتی منصوبوں کی فنڈنگ سے فیضیاب ہوئے۔تجزئے میں ان تمام ترقیاتی پروگراموں کی قیمت اس شہر میں بسنے والے لوگوں کو ادا کرنا پڑی  اور مستقبل میں بھی ادا کریں گے بغیر کسی سہولت عوض اور ترقیاتی منصوبوں کا منافع ورلڈ بینک،ان کے لوکل پارٹنر اور تعمیراتی  ٹھیکداروں کو ہی ملے گا بغیر کسی محنت کے عوض ۔

گجر نالے اور کراچی کے دیگر نالوں کے اطراف گھروں کی مسماری  اور زبردستی بیدخلی کے خلاف جدوجہد نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کی جدوجہد ہے بلکہ یہ کراچی سمیت سندھ کے دیگر اضلاع سے تجاوزات کے نام پر گھروں سے زبردستی بیدخل کئے جانے والے محنت کش عوام کی جدوجہد ہے اور یہ ان 10 لاکھ محنت کش عوام کے حقوق کی بھی جدوجہد ہے جنہیں اگلے پانچ سالوں میں پورے پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے نام پر گھروں سے بیدخل کیا جائے گا اور یہ ہر اس مزدور بستی کی جدوجہد جسے ترقی کے نام پر کسی بھی وقت اپنے گھروں سے بیدخلی اور مسماری کا سامنا کرنا  پڑ سکتا ہے۔

Zaka Ullah
+ posts

 ذکا اللہ کا تعلق پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کراچی سے ہے۔