لاہور (نامہ نگار) معروف صحافی و مصنف زاہد حسین نے اپنی نئی تصنیف ”No-Win War:The Paradox of US-Pakistan Relations in Afghanistan’s Shadow” میں انکشاف کیا ہے کہ 02 مئی 2011ء کو پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں واقع کاکول ملٹری اکیڈمی کے قریب امریکی فضائی آپریشن کے نتیجے میں ایک کمپاؤنڈ میں موجود القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی کے بعد پاکستانی فوج کے افسروں اور اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے کیلئے پمفلٹ تقسیم کئے گئے تھے۔ یہ پمفلٹ ایک شدت پسند گروہ ’حزب التحریر‘ کی جانب سے لکھے گئے۔ ان پمفلٹس میں پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت پر امریکی حملے کی مذمت اور پاکستان کے فوجی افسروں اور اہلکاروں سے بغاوت کرتے ہوئے خلافت کے نفاذ کی اپیل کی گئی تھی۔
یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ جب ایک امریکی جنرل نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو ٹیلی فون پر بتایا کہ اسامہ بن لادن کو مار دیا گیا ہے تو جنرل کیانی کا جواب تھا: ’اس خوشخبری پر مبارک ہو‘۔ زاہد حسین کی تصنیف میں امریکی آپریشن اور اس کے بعد ہونے والے مختلف واقعات اور حالات کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔ مذکورہ تصنیف سے امریکی آپریشن سے متعلق ایک اقتباس ’ڈان‘ میں شائع کیا گیا ہے۔ مذکورہ تصنیف میں امریکی آپریشن کے بعد پاکستان کی فوجی اور سول قیادت کی جانب عوامی دباؤ سے نمٹنے کیلئے اٹھائے گئے اقدامات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ 02 مئی 2011ء کو امریکی ہیلی کاپٹروں کے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایبٹ آباد آپریشن میں شریک ہونے اور واپس پاکستانی فضائی حدود کو چھوڑنے کے دوران ہونے والے اقدامات کی روشنی ڈالی گئی ہے۔
واقعات کے مطابق پاکستان کی فوجی و سول قیادت کو امریکی کارروائی سے متعلق کوئی علم نہیں تھا اور جب آپریشن مکمل کر کے ہیلی کاپٹر واپس اڑ چکے تھے اس وقت آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کارروائی کی ہدایت دی لیکن فضائیہ 40 منٹ سے زائد وقت کے دوران کوئی کارروائی نہیں کر سکی، یہاں تک کہ جنگی طیارے اڑائے بھی نہیں جا سکے۔ تاہم کہا گیا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے پاکستان کے تعاون کے ذکر کی وجہ سے فوجی و سول قیادت کو کچھ ریلیف ملا لیکن وہ کافی نہیں تھا، پاک فوج کے اندر سخت رد عمل موجود تھا۔
حزب التحریر نامی گروپ کے پمفلٹ میں لکھا گیا تھا کہ ”یہ معزز افسران کے منہ پر ایک طمانچہ ہے کہ 02 مئی کو امریکی ہیلی کاپٹر رات کے اندھیرے میں چوروں کی طرح گھر میں گھس آئے۔ یہ آپ کے اعلیٰ عہدیداروں کی جانکاری کے بغیر ممکن نہیں تھا۔“
یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ جب یہ واضح ہوا کہ فوج کی صفوں کے اندر موجود جوانوں نے ہی یہ پمفلٹ تقسیم کئے تو کارروائی کے نتیجہ میں ایک بریگیڈیئر اور کچھ دوسرے افسروں کو اس گروہ سے وابستگی کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور انکا کورٹ مارشل کیا گیا تھا۔
اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی سے متعلق اندرونی ملٹری تحقیقات کیلئے پاکستانی بورڈ آف انکوائری کی سربراہی جنرل اشفاق پرویز کیانی کے قریبی ساتھی لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کر رہے تھے۔ اس انکوائری کی رپورٹ کو سکینڈل پر پردہ ڈالنے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا اور چند سال بعد جنرل جاوید اقبال کو امریکہ کیلئے جاسوسی کے الزام میں کورٹ مارشل کیا گیا اور 14 سال قید کی سزاسنائی گئی۔
تصنیف میں ایبٹ آباد کمیشن کی فائنڈنگز بھی تحریر کی گئی ہیں۔ یہ رپورٹ 2013ء میں حکومت کو پیش کی گئی تھی لیکن اسے کبھی بھی عام نہیں کیا گیا۔ تاہم اس تصنیف میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ میں سکیورٹی اداروں پر اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے میں ناکامی پر سخت الزامات عائد کئے گئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 02 مئی پاکستان کیلئے سیاہ دن تھا۔ صرف اس وجہ سے نہیں کہ امریکی فوج نے پاکستانی سرزمین پر کارروائی کی بلکہ دنیا کے انتہائی مطلوب عسکریت پسند کی میزبانی کرتے ہوئے پکڑے جانے کی ذلت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس رپورٹ میں القاعدہ کے رہنما کو پناہ دینے میں کسی ادارے کی شمولیت کومسترد کیا گیا۔
واضح رہے کہ 10 سال قبل 02 مئی 2011ء کو رات 12:30 بجے امریکی فوج نے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں واقع ایک کمپاؤنڈ میں موجود اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کیا تھا، جس کے نتیجے میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ یہ آپریشن 3 گھنٹوں میں مکمل کر کے امریکی ہیلی کاپٹر فضائی حدود سے باہر نکل گئے تھے۔