حارث قدیر
کورونا وبا کے باعث لگنے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے پاکستا ن میں ہزاروں افراد کا روزگار ختم ہو گیا، سیاسی و جمہوری آزادیوں پر پابندیاں لگائی گئیں، صحافتی آزادیوں کو سلب کیا گیا، صحت اور انصاف کے بحران میں بھی اضافہ ہوا۔
یہ انکشافات انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی سالانہ رپورٹ میں کئے گئے ہیں۔ حال ہی میں جاری کی گئی 262 صفحات پر مبنی انسانی حقوق رپورٹ 2021ء کے مطابق ہزاروں فیکٹری ورکرز اور نجی ملازمین کا روزگار ختم ہوا جس کی وجہ سے ڈیلی ویجز مزدور سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔
وبائی مرض کی وجہ سے تعلیمی اداروں کو بھی بہت بڑا دھچکا لگا، بالخصوص بلوچستان، خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع اور گلگت بلتستان میں ہزاروں طلبہ کو آن لائن کلاسیں لینے پر مجبور کیا گیا لیکن ان کے پاس قابل اعتماد انٹرنیٹ کنکشن تک رسائی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا بحران پر قابو پانے کیلئے قائم ہونے والی اعلیٰ سطحی قومی رابطہ کمیٹی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کا قیام پارلیمنٹ سے منظوری کے بغیرعمل میں لایا گیا۔ اجتماعات کو روکنے کے احکامات کے تحت سیاسی اجتماعات کو مذہبی اجتماعات کی نسبت زیادہ پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 2.1 ملین سے زائد مقدمات پاکستانی عدالتوں میں زیر التوا تھے جبکہ 2019ء کے اختتام تک یہ تعداد تقریباً 18 لاکھ کے قریب تھی۔ قومی احتساب بیورو کو بطور آلہ کار اپنی استعمال کرتے ہوئے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی گئیں۔ فوجی عدالتوں کے ذریعے دہشت گردی کے الزام میں سزا یافتہ 196 افراد کو پشاور ہائی کورٹ نے ایک فیصلے میں رہا کرنے کا حکم دیا گیا۔
انسانی حقوق کے قومی اداروں کو بھی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت غیر فعال کیا جا رہا ہے۔ نیشنل کمیشن برائے ہیومن رائٹس مئی 2019ء سے غیر فعال ہے، نئے چیئرپرسن کی تقرری التوا کا شکار ہے۔ خواتین کے قومی کمیشن کے چیئرپرسن کا عہدہ بھی نومبر 2019ء سے خالی ہے۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے انسانی حقوق کی صورتحال کو دستاویز کرنے کیلئے ایک کمیشن تشکیل دیا لیکن وہ تاحال کام نہیں کر سکا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی کے صوبہ سندھ، پنجاب اور سابق قبائلی اضلاع میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا، جبکہ بلوچستان اور کے پی کے میں کمی واقع ہوئی ہے۔ خود کش حملوں میں کمی دیکھی گئی لیکن ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ ہوا۔ 2019ء میں 24 کے مقابلہ میں 2020ء میں 49 ٹارگٹ کلنگ کے حملے ہوئے۔
لاپتہ افراد سے متعلق کمیشن کے پاس درج مقدمات کے مطابق 2020ء کے آخر تک صوبہ خیبر پختونخوا میں 2 ہزار 942 افراد لاپتہ ہوئے۔ جون 2020ء کو لاپتہ ہونے والے انسانی حقوق کے کارکن ادریس خٹک کی بازیابی کیلئے 6 ماہ تک بین الاقوامی مہم چلائے جانے کے بعد وزارت دفاع نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان پر غداری کا الزام عائد کیا گیا ہے اور وہ حراست میں ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طلبہ یونین کی بحالی کا بل سندھ اسمبلی میں منظور ہونے کے باوجود نہ تو کوئی پیشرفت ہوئی اور نہ ہی دوسرے صوبوں نے اس طرح کا کوئی اقدام کیا۔ رپورٹ کے مطابق اظہار رائے کی آزادی کی صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے گزشتہ سال میں کم از کم 10 صحافیوں کو قتل کیا گیا، متعدد کو دھمکیاں دی گئیں اور اغوا و تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق جبری طور پر مذہب تبدیل کرنے اور مذہبی اقلیتوں اور فرقوں کے خلاف توہین رسالت کے الزامات کا سلسلہ جاری رہا۔ 31 افراد کو جبری طور پر مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کے واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے 6 نابالغ بھی شامل ہیں۔
پولیس اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 586 افراد پر توہین مذہب کے الزامات کے تحت مقدمات درج کئے گئے، اکثریت پنجاب سے تھی۔ احمدی ممبران کے خلاف کم از کم 24 مقدمات درج کروائے گئے۔ احمدی برادری کے کم از کم 3 افراد علیحدہ علیحدہ ٹارگٹ حملوں میں مارے گئے، بشمول ایک بزرگ شخص کے جنہیں توہین رسالت کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور کمرہ عدالت میں ہی گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق صنفی تفریق کے عالمی انڈیکس میں پاکستان کی مزید دو درجے تنزلی ہوئی۔ گھریلوتشدد اور آن لائن شکایات میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ 2020ء میں غیرت کے نام پر قتل کے 430 واقعات ریکارڈ کئے، جن میں 148 مرد اور 363 خواتین شامل ہیں۔ ایک انداز ے کے مطابق ملک بھر میں کم از کم 2960 بچوں سے زیادہ کے واقعات رپورٹ ہوئے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ نجکاری کے پروگرام پر عمل کرتے ہوئے پاکستان اسٹیل ملز کی انتظامیہ نے 4500 سے زائد محنت کشوں کو برطرف کر دیا۔ عالمی مزدور قوانین اور منظور شدہ کنونشنز کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے فیکٹریوں کو معائندہ سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ سال 2020ء میں جبری مشقت سے 2437 افراد کو سندھ ہائی کورٹ کے احکامات پررہا کیا گیا تھا۔
سال 2020ء کے دوران مختلف حادثات کے دوران 116 کان کن ہلاک ہوئے، اس کے باوجود آئی ایل او کنونشن 176 کی توثیق پاکستانی حکومت کی طرف سے نہیں کی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ کورونا وبا نے صحت کی سہولیات کو بھی بے نقاب کر دیا۔ ایس او پیز پر عملدرآمد اور وبائی بیماری کی شدت سے عوام کو محفوظ رکھنے میں صحت کا نظام ناکام رہا۔ صحت کے بحران میں اضافہ ہوا۔
رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کی صورتحال بھی پہلے سے مزید خراب ہوئی، گزشتہ سال کے آخر تک فیصل آباد اور لاہور دہلی کو ماحولیاتی آلودگی میں پیچھے چھوڑ کر دنیا کے آلودہ شہروں کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں۔
مون سون بارشوں کے نتیجے میں سندھ میں 20 اضلاع متاثر ہوئے، کم از کم 30 افراد ہلاک ہوئے۔ ایک سرکاری تحقیق میں انکشاف ہوا کہ ہری پور میں لینڈ ڈویلپرز اور بلڈروں نے جنگلات کو بری طرح سے نقصان پہنچایا۔ جنگلات کو کاٹ کر غیر قانونی طور پر تجارتی اور رہائشی سکیموں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔