لاہور (جدوجہد رپورٹ) پاکستانی اشرافیہ سالانہ 1800 سے 1900 ارب روپے کی مراعات لے رہی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ 1 فیصد بڑے زمیندار وں کی آمدن 955 ارب روپے ہے مگر ان سے دو ارب ٹیکس وصول کیا گیا ہے جبکہ شہری جائیدادوں سے ہونیوالی رینٹل انکم 750 ارب ہے مگر ٹیکس محض 6 ارب جمع ہوتا ہے۔
یہ انکشافات گذشتہ روز معروف ماہر معیشت اور سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے حقوق خلق موومنٹ کے زیر اہتمام ہونے والے ایک ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے کئے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے 1 فیصد بڑے زمینداروں کے پاس قابل کاشت اراضی کا 22 فیصد رقبہ ہے (55 فیصد کے پاس 17 فیصد رقبہ ہے) اور رواں مالی سال میں بڑے زمینداروں کی آمدن 955 ارب روپے مگر ان پر عائد ہونے والے زرعی ٹیکس کا حجم محض 2 ارب روپے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زرعی ٹیکس جمع کرنا صوبائی حکومتوں کے ذمہ ہے اور وہ اس ٹیکس کے ذریعے دیہاتوں کو اور زراعت کو ترقی دے سکتے ہیں۔
اسی طرح، ان کا کہنا تھا کہ شہروں میں جو چار چار کنال کی کوٹھیاں اور محل نظر آتے ہیں جو پاکستان کے بیس فیصد امیر افراد کی ملکیت ہیں، ان پر سالانہ 750 ارب روپے کی رینٹل انکم ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس شہری جائیداد کی مالیت 20 کھرب روپے بنتی ہے مگر صوبے اس مد میں محض 6 ارب جمع کر پا رہے ہیں۔
شہری جائیداد پر ٹیکس چوری کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمومی طور پر اگر جائیداد کی قیمت سو روپیہ ہے تو اسے دس روپے کا ظاہر کیا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 53 فیصد مزدوروں کو کم از کم اجرت نہیں مل رہی جبکہ ریاست کی طرف سے ملنے والی سبسڈی کا فائدہ امیر طبقے کو غریب لوگوں کی نسبت تین گنا زیادہ ہوتا ہے۔
مکمل ویبینار یہاں دیکھا جا سکتا ہے: