قصور (جاوید ملک) دنیا بھر میں جنسی استحصال اور جبری جسم فروشی کے لیے انسانوں کی اسمگلنگ سے جرائم پیشہ گروہوں کو سالانہ تقریباً 100 ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔
یہ بات اس موضوع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر میڈیا کو بتائی گئی۔ دنیا کے مختلف ممالک میں جنسی استحصال کے لیے انسانوں، خاص کر عورتوں اور لڑکیوں کی اسمگلنگ ایک ایسا عالمگیر مسئلہ ہے کہ اس کے تدارک کے لیے بین الاقوامی برادری عرصے سے کوششیں کر رہی ہے۔ لیکن چھوٹے شہروں سے بڑے شہروں اور غریب اور پسماندہ ممالک سے مقابلتاً امیر اور ترقی یافتہ ممالک میں انسانوں کی ایسی اسمگلنگ کو آج تک ختم نہیں کیا جا سکا۔
اس بارے میں ’انسانوں کی اسمگلنگ کے خلاف اتحاد‘ نامی بین الاقوامی پلیٹ فارم کی 21 ویں کانفرنس آسٹریا میں پیر 14 جون کو شروع ہوئی تھی، جو 5 روز تک جاری رہنے کے بعد گزشتہ روز ختم ہوئی۔
اس کانفرنس میں یورپی سلامتی اور تعاون کی تنظیم ’OSCE‘ کی طرف سے اس کے خصوصی مندوب اور ہیومن ٹریفکنگ کی روک تھام کے لیے رابطہ کار ویلیئنٹ رِچی نے حصہ لیا۔
ویلیئنٹ رِچی نے انسانوں کی اسمگلنگ کے مسئلے اور اس بین الاقوامی کانفرنس کے حوالے سے گزشتہ روز ایک انٹرویو کے دوران میں کہا کہ ”ہیومن ٹریفکنگ اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ اس کی وجہ سے ایک پوری ’سیاہ معیشت‘ جنم لے چکی ہے۔“
انہوں نے کہا کہ ”عالمی برادری کو ایسی مجرمانہ سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے زیادہ بھرپور اور مربوط اقدامات کی ضرورت ہے۔ مختلف براعظموں میں جرائم پیشہ گروہ ہر سال جن بے شمار عورتوں اور بچوں کو جبری جسم فروشی کے لیے دوسرے شہروں یا ممالک میں اسمگل کر دیتے ہیں، ان سے انہیں تقریباً 100 ارب ڈالر کے برابر آمدنی ہوتی ہے۔“
ویلیئنٹ رِچی کے مطابق ”یہ رقم امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ایپل کارپوریشن کو ہونے والے سالانہ منافع کے تقریباً برابر بنتی ہے اور اس سالانہ ناجائز کمائی کے حجم سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی سطح پر جنسی استحصال کے لیے انسانوں کی اسمگلنگ کتنا بڑا اور شدید مسئلہ ہے۔“
انکا کہنا تھا کہ ”انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے جرائم پیشہ گروہوں کے لیے یہ اس لیے بہت پرکشش کاروبار ہوتا ہے کہ انہیں اسمگل شدہ افراد کو جنسی غلاموں کے طور پر بیچنے کے عوض بہت بڑی بڑی رقوم ملتی ہیں۔“
انکے مطابق ”ایسے بے بس اور اسمگل شدہ انسانوں سے جبراً جسم فروشی کرانے والوں کو بھی علم ہوتا ہے کہ جب تک ان کے ہاں آنے والے مرد جنسی خدمات کے لیے مالی ادائیگیوں پر تیار ہیں، انہیں مسلسل کمائی ہوتی رہے گی۔“
انہوں نے کہا کہ”ایسی جسم فروشی اب صرف کسی بھی ملک یا شہر میں مخصوص جگہوں پر ہی نہیں ہوتی بلکہ جنسی خدمات کی یہ ناجائز خرید و فروخت زیادہ سے زیادہ آن لائن بھی ہونے لگی ہے۔ ایسی ہزاروں ویب سائٹس ہیں، جن کے ذریعے مجرمانہ کاروبار کے طور پر درپردہ لیکن وسیع پیمانے پر انسانوں کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے صرف انسانی معاشروں میں ہی نہیں بلکہ سائبر ورلڈ میں بھی سخت، مربوط اور نتیجہ خیز اقدامات کی ضرورت ہے۔“