کنور خلدون شاہد
آخر کار ہمیں وہ قیادت نصیب ہو ہی گئی جس کے ہم بلاشبہ مستحق تھے۔ وہ دن گئے جب ہمارے حکمران امریکہ کے ’ڈو مور‘ میں مشغول رہا کرتے تھے۔ موجودہ حکمران تو اپنے ہی ووٹروں کے ’نو مور‘ کے نعروں کو بھی دھڑلے سے نظر انداز کر رہے ہیں۔ یاد رہے! یہ ثابت قدمی محض انہی کی ملکیت ہوتی ہے جو محض ارادوں اور اداروں کے پیروکار ہوتے ہیں۔
اس حکومت کی خودمختاری کی اس سے بڑی اور کیا مثال ہو سکتی ہے کہ موجودہ قائدین نے ملک میں نہ ہی کوئی ڈرون حملہ ہونے دیا ہے اور نہ ہی کوئی مارشل لا لگنے دیا۔
امریکہ کو تو کھری کھری سنا دی ہیں کہ پاکستان تمہیں مزید ہوائی اڈے ہرگز نہیں بنانے دے گا لہٰذا جو اڈے دہایوں سے استعمال کر رہے ہو اس کے علاوہ خبردار جو کسی اور رقبے کی جانب اپنی گندی نظر سے دیکھا۔
امداد میں باقاعدگی کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی تنبیہ بھی دے دی گئی ہے، بلکہ جو بائیڈن سے فون پر رابطہ نہ ہونے کے باعث وائٹ ہاؤس پریس سکریٹری کو صاف صاف پیغام بھی دے دیا: ”کوئی پوچھے تو کہنا خان کا فون آیا تھا۔“
موجودہ حکومت کے نڈر استقلال سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ اب پاکستان نہ سوویت یونین سے جنگ مول لے گا نہ سلطنت عثمانیہ کی تحلیل ہونے دے گا اور نہ ہی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ کوئی معاہدہ کرے گا۔ اظلال الٰہی نے پورا صوبہ ضرور بیشتر غیر ملکی تاجران کے حوالے کیا ہے لیکن سننے میں آیا ہے کہ وہ کمپنیاں شہد سے زیادہ میٹھی ہیں، یا غالبا ًچینی سے۔
اب جنوبی ایشیا کی دو مقبوضہ اقوام کو ایک سڑک سے جوڑ کر ایک ہی بیلٹ میں باندھ کر اس چینی کی لاثانی مٹھاس گھوٹ کر پلائی جا رہی ہے۔ یہ حقیقت باعث تشویش ہے کہ ان دونوں قوموں کے مسلمان ہونے کے باوجود یہ دو قومی نظریہ کسی کی نظر سے کیوں نہیں گزر رہا۔
یقینا مسلمانوں کے بھی درجات ہوتے ہیں اور اس ورنیئر پیمانے کا عروج پچھلی نصف صدی میں اگر کسی نے دیکھا ہے تو وہ ہیں غازی اسامہ بن لادن شہید۔
یہ بات مجھے ڈنکے کی چوٹ پر کہنے کی ہمت اس خودمختار حکومت نے ہی دلائی ہے کیونکہ کمزور عقیدے کے مالکان کا کہنا ہے کہ سچے مسلمان اور اصل اسلام کی تائید سے مغرب میں اسلاموفوبیا پھیلتا ہے۔ مغرب کو چھوڑیے ماضی میں تو غازی ممتاز قادری شہید کو بھی ریاستی طور پر پاکستان ہی میں دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے۔ ہم چلاتے رہ گئے کہ کیا غازی علم دین شہید بھی نعوذبااللہ دہشت گرد تھے؟
ویسے تو غازی ممتاز قادری شہید کا مجھ سے بڑا جاں نثار اور عاشق کوئی نہیں۔ جب بھی اسلام آباد چکر لگا تو ان کے مزار مبارک پر ہمیشہ چادر چڑھائی لیکن یہ تسلیم کرنے میں مجھے کوئی جھجھک نہیں کہ غازی اسامہ بن لادن شہید کا رتبہ عالی ان سے بھی بلند ہے لہٰذا ایک دہائی سے قلب داغدار میں مقید اس حسرت کو رہا کرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے جو غازی اسامہ بن لادن کی شہادت کے روز طائرِ روح ہوا، جس روز میں نے لاکھوں مومنین کے ہمراہ ان کے انتقال کی تمام افواہوں کو ڈرامہ بھی قرار دیا اور ان کی غائبانہ نماز جنازہ میں شرکت بھی کی۔ اس غائبانہ نماز جنازہ کی قسم اب غازی اسامہ بن لادن شہید کے غائبانہ مزار کی تعمیل کا وقت ہو گیا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ بن لادن شہید مزاروں میں یقین نہیں رکھتے تھے بلکہ وقتاً فوقتاً مزارات یا دوسری فقہا کی مساجد پر دھماکے بھی کروا دیا کرتے تھے لیکن یہاں بات ان کے عقائد یا اعمال کی نہیں ان کے رتبے اور ہماری عقیدت کی ہے۔
اگر آپ کو پھر بھی شیطان اس صدقہ جاریہ کے پیغام کو فارورڈ کرنے سے روک رہا ہے تو اس مزار کی حمائیت کرنے کی اس سے بڑی وجہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ امریکہ نے بن لادن شہید کے جسم مقدس کو بحیرۂ عرب میں اسی لئے دفن کیا تاکہ امت مسلماں ان کی درگاہ سے محروم ہو جائے لہٰذا اس بے خوف و خطر حکومت سے گزارش ہے کہ اس نیک کام میں دیری نہ کی جائے۔
اس مزار کے تعمیراتی کام کی تمام تر ذمہ داری قریشی صاحب کو دے دی جائے محض اس لئے نہیں کہ وہ ایک فل ٹائم گدی نشین ہیں بلکہ اس لئے بھی کیونکہ انھوں نے بطورایک فری لانس سیاستدان اور پارٹ ٹائم سفارتکار گزشتہ روز بن لادن شہید کے مزار کی پہلی اینٹ رکھی۔
جس مہارت کے ساتھ انھوں نے اسامہ بن لادن کے شہید ہونے والے سوال کو ’ویل لیفٹ‘ کیا انٹرویو کے بعد ان کا یقینا کانکشن ٹیسٹ کروا کے انھیں نیا ہیلمٹ دیا گیا ہو گا۔ بلاشبہ پیر صاحب نے بلے بازی کا ہنر اپنے کپتان سے ہی سیکھا ہے جنھوں نے پچھلے سال بغیر کسی کے گیند ڈالے ہی بال کو سٹیڈیم سے باہر پھینک کر زیر غور غائبانہ مزار کی بنیاد رکھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ درگاہ پاکستان کے دارالخلافہ میں تعمیر ہونی چاہئے۔ یہ وہ شہر ہے جو اسلام کے نام پر بنا، جہاں قادری شہید کا مزار، غازی عبد العزیز کا قلعہ، آبپارہ کا المشہور پروسیسنگ پلانٹ جیسے کئی مقدس مقامات واقع ہیں۔ ویسے تو اسلام آباد میں کہیں بھی یہ درگاہ بنائی جا سکتی ہے لیکن اگر غازی اسامہ بن لادن شہید کو ان کی مستحق خراج تحسین پیش کرنی ہے تو ایک موجودہ عمارت کو ہی ان کے غائبانہ مزار کی شکل دے دینی چاہئے۔ اور وہ عمارت ہے پاکستانی پارلیمان۔
گزارش ہے کہ جب بھی یہ ناگزیر فیصلہ لیا جائے تو اس کے ہمراہ اس غائبانہ مزار میں ایک قانون بھی پاس کیا جائے کہ اسامہ بن لادن کے نام کے بعد لازما ’شہید‘ لکھا جائے۔ خلاف ورزی کرنے والے کو گستاخی کا مجرم قرار دیا جائے۔ اس طرح یہ پارلیمان تا قیامت پاکستان کے ایمان اور خود مختاری کی شہادت دے گا۔