فاروق طارق
پانچ جولائی پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ 1977ء میں اس روز جنرل ضیاالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت کو اقتدار سے محروم کر کے مارشل لا کا نفاذ کر دیا تھا اور اس فوجی آمریت کا سب سے پہلا ایکشن ٹریڈ یونین سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنا تھا۔
مارشل لا کے نفاذ سے قبل بھٹو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مارچ 1977ء کے عام انتخابات میں انتخابی دھاندلیوں بارے مذاکرات کے مختلف ادوار ہو چکے تھے اور اس وقت کی اپوزیشن اور حکومت کے رہنماؤں کے مطابق ان کا نئے عام انتخابات کے انعقاد کے لئے معاہدہ ہو چکا تھا جس پر اگلے روز دستخط ہونے تھے۔
جنرل ضیاالحق نے اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد جتنے جھوٹ بولے اگر ان کا موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے جھوٹوں سے موازنہ کیا جائے تو اس میں جنرل ضیاالحق‘ عمران خان سے بھی کہیں آگے رہے گا۔
ضیا نے پہلی تقریر میں فوری عام انتخابات کرانے کا وعدہ کیا اور کہا کہ وہ ایک منصفانہ عام انتخابات کے انعقاد کے بعد اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کر دے گا۔ یہ وعدہ 1977ء میں اس نے کئی دفعہ کیا اور پھر خود ہی اس سے مکر گیا۔
وہی رٹ لگائے رکھی جو فوجی آمروں کا وطیرہ ہے کہ پہلے ’احتساب پھر انتخاب۔‘ یوں احتساب کے نام پر آمرانہ اقدامات کا ایک نیا باب رقم کیا گیا۔
فوجی آمروں کو اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد لوکل باڈیز کے انتخاب بہت یاد آتے ہیں۔ ایسے انتخابات سے انہیں یہ کہنے کا موقع مل جاتا ہے کہ قیادت نیچے سے ابھرنی چاہئے۔ اور یوں انہیں لوکل سطح پر اپنے کچھ ایجنٹ بنانے کا موقع مل جاتا ہے اور سب سے زیادہ فائدے کی بات کہ انہیں ایسے انتخابات کے بعداقتدار سے علیحدہ ہونے کا نہیں کہا جاتا۔ اور فیڈرل سطح پر اقتدار ان کے پاس ہی رہ جاتا ہے۔
ضیا آمریت بھی اسی طریقے پر قائم رہی اور اس نے 1979ء، 1983ء اور 1987ء میں لوکل باڈیز کے انتخابات منعقد کرائے۔ یوں اسے ان انتخابات کے ذریعے مستقبل کی وہ سیاسی قیادت مل گئی جنہوں نے اس کی معاونت اور رہنمائی سے فوجی آمریت کے اقتدار کے تسلسل کو یقینی بنائے رکھا۔
ضیا آمریت سے قبل ایوب خان آمریت اور اس کے بعد مشرف آمریت نے بھی یہی حکمت عملی اپنائے رکھی۔ ایوب خان کا بنیادی جمہوریت کا طریقہ کار ان کے صدر ’منتخب‘ ہونے میں مددگار رہا۔ مشرف آمریت کا مقامی حکومتوں کا تصور بھی ان کے اقتدار کے تسلسل کا باعث بنا رہا۔
پاکستان کی تین فوجی آمریتوں کے دور اقتدار میں سے ضیا آمریت سب سے زیادہ جابر اور ظالم تھی۔
ضیاالحق آمریت نے ایک منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں 4 اپریل 1979ء کو پھانسی کے پھندے پر چڑھا دیا۔ ہزاروں لوگوں کو جیلوں میں ڈال دیا۔ ہزاروں جلا وطن ہوئے۔ صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کو سرعام کوڑے لگائے گئے۔ فوجی عدالتوں نے انصاف کی وہ دھجیاں اڑائیں کہ کوئی جواب ہی نہیں۔ صحافت پر سنسرشپ کی کڑی پابندیاں لگائے رکھیں۔
عمران خان کا وزیر فیصل واوڈا آج پانچ ہزار لوگوں کو سر عام پھانسی لگانے کی بات کرتا ہے کہ اس سے ملک بدعنوانیوں اور جرائم سے پاک ہو جائے گا۔ یہ تو باتیں کرتا ہے ضیاالحق نے تو سعودی عرب کی تقلید میں سر عام پھانسیاں دیں بھی تا کہ خوف و ہراس کی وہ فضا قائم ہو جو اس سے پہلے دیکھی نہ گئی۔ مگر ان سرعام پھانسیوں اور کوڑوں نے بھی ضیاالحق آمریت کے خلاف سیاسی جدوجہد کی شدت کو کم نہ کیا۔
ضیا آمریت کا سب سے زہریلا ہتھکنڈا مذہب کا سیاست میں غیر معمولی استعمال تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ابتدائی ہچکچاہٹ کے بعد اس نے اسلامائزیشن کو اپنا سیاسی ہتھیار بنا لیا۔ امریکی سامراج نے اس عمل میں اس کی بھرپور سیاسی اور معاشی مدد کی۔ اربوں ڈالر اس آمریت کو مہیا کیے گئے تا کہ وہ ’کمیونزم‘ کا مقابلہ کر سکے۔
افغانستان میں بالخصوص 1978ء کے ثور انقلاب کے بعد میں جہادی گروہوں کی ہر ممکن مدد کی گئی۔ ان کے اڈے قائم کیے گئے۔ جا بجا مدرسے کھولے گئے۔ تعلیمی نصاب تبدیل کر کے اسے مذہبی بنایا گیا۔ امریکہ کے ساتھ ساتھ سعودی عرب بھی اس عمل میں پیش پیش تھا۔
1973ء کے آئین میں بنیادی تبدیلیاں کی گئیں۔ کئی آئینی ترامیم کے ذریعے اسے مذہبی لبادہ اوڑھایا گیا۔ توہین مذہب کے قوانین کو مزید سخت کر کے سزائے موت کو ان میں شامل کرایا گیا۔ شرعی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ان عدالتوں نے زرعی اصلاحات کو غیر اسلامی قرار دے کے بھٹو دور میں الاٹ کردہ مزارعین اور چھوٹے و بے زمین کسانوں کی زمینوں پر دوبارہ جاگیرداروں کا قبضہ کرا دیا۔
مذہبیت کے علاوہ کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر کو فروغ دیا گیا۔ یعنی بندوق اور منشیات کا بھرپور استعمال کیا گیا۔ معاشرے کی تھوڑی بہت ترقی پسند روایات کو کچل کر رجعت کو فروغ دیا گیا۔ معاشرہ عمومی طور پر ایک دائیں بازو کا رُخ اختیار کر گیا۔
اسی دور میں فوج کی معاشی سرگرمیوں میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوا۔ بھٹو کی نیشنلائزیشن کو ختم کرنے کے کافی اقدامات کیے گئے۔ سرکاری کارخانے سرمایہ داروں کے حوالے کیے گئے اور سرکاری زمینوں پر جاگیرداروں اور فوجی افسران کا قبضہ قانونی بنا دیا گیا۔
اس دور میں طبقاتی استحصال کو آمرانہ جبر سے ہر ممکن حد تک مسلط کیا گیا۔ یہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا سرکاری افسر شاہی کے ساتھ مل کر کھلی لوٹ مار کا دور تھا۔ اعلیٰ ججوں کی اکثریت کا فوجی اقتدار کو قانونی حیثیت دینے کا دور تھا۔ سب اداروں کا طبقاتی کردار کھل کے سامنے آیا۔
ضیاالحق کو پھر انہوں نے ہی ختم کیا جو اس کو لانے والے تھے۔ 1988ء میں اس کا طیارہ ہوا میں بھسم ہو گیا۔ آج تک یہ واضح نہ ہو سکا کہ یہ طیارہ کیسے اور کیوں تباہ ہوا۔
آمروں کی کم تعداد ہی طبعی اموات سے جان چھوڑتی ہے۔ ضیاالحق نے بھی اس روایت کو جاری رکھا۔
5 جولائی 1977ء کے بعد کی دہائیوں میں بہت کچھ بدلنے کے باوجود کچھ نہیں بدلا ہے۔ آج بھی وطن عزیز میں جمہوری اور تحریر و تقریر کی آزادیوں کی گنجائش مسلسل سکڑتی جا رہی ہے۔ طبقاتی اور قومی جبر و استحصال عروج پہ ہے۔ محنت کش طبقے کی سیاسی، معاشی اور سماجی حالت کہیں زیادہ خراب ہو چکی ہے۔ کئی حوالوں سے سنسرشپ اور سرکاری جبر ضیا آمریت سے بھی زیادہ زہریلا ہو چکا ہے۔
لہٰذا پانچ جولائی کو رجعت، سرکاری جبر، آمرانہ اقدار، بنیاد پرستی اور سب سے بڑھ کے ان سب کی جڑ سرمایہ داری کیخلاف جدوجہد جاری رکھنے کے عہد کی تجدید کے دن کے طور پر منانے کی ضرورت ہے۔