خبریں/تبصرے

کابل ایئر پورٹ پر گزرے 12 گھنٹے

افغان

میں نہیں جانتا کہ کوئی یہ مضمون پڑھے گا اور سوچے گا لیکن میں اس وقت اتنا دکھی ہوں کہ مجھے وہ خوفناک 13 گھنٹے شیئر کرنے کی ضرورت ہے جومیں نے اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو طیاروں کے ذریعے افغانستان سے نکالنے کی کوشش کی۔

میں گزشتہ روز سہ پہر 3 بجے گیا اور آج صبح 3 بجے ناکام گھر واپس آ گیا۔ میرا خاندان، میری بیوی جو ایک میڈیکل ڈاکٹر ہے اور اپنے صوبہ پروان میں، گیارہ ستمبر کے بعد، یونیورسٹی میں سب سے زیادہ نمبر لینے والی اورپہلی خاتون میڈیکل طالبہ بھی، میرے 2 بیٹے 2 سالہ احمد اور 7 سالہ محمد ائر پورٹ پر جن حالات سے گزرے اس کا احوال بتانا چاہتا ہوں۔

میری بیوی کو طالبان کی طرف سے کئی بار ڈنڈوں سے مارا گیا اور اسی طرح بے شمار لوگوں کے ساتھ کیا گیا۔ ہم پر پانی پھینک کر ہماری تضحیک کی گئی اور بار بار کہا جا رہا تھا کہ آپ کے مغربی آقا آپ کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ ایک انچ آگے بڑھنے کے لئے ہم گھسٹ گھسٹ کر آگے بڑھتے کیونکہ اگر ہم اٹھتے تو طالبان ہمیں لاٹھیوں سے مارتے تھے یا ہمارے کانوں کے بالکل قریب گولیاں چلاتے۔ وہ امریکی ساختہ ہتھیاروں سے سارا دن اور رات ہوائی فائرنگ کر رہے تھے، وہاں چند ماہ کی عمر کے چھوٹے بچے بھی تھے۔

اوہ، محمد کی خوفزدہ آنکھیں جو پانی اور کھانا، کچھ نہیں چاہتی تھیں اور صرف یہ کہہ رہی تھیں کہ چلو گھر چلیں، ائر پورٹ آنے سے پہلے وہ اپنے بیگ تیارکرتے ہوئے اچھل کود رہا تھا اورگھر سے جاتے ہوئے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے اپنی ڈرائنگ کا انتخاب کر رہا تھا۔

میں نے پہلے ہی اسے ہوائی فائرنگ کے بارے میں تھوڑا بتا دیا تھا اور یہ کہ آنسو گیس چل سکتی ہے، میں نے اسے تیار کرنے کی کوشش کی، لیکن مجھے لگتا ہے کہ مجھے مزید ذہنی بتانے اور ذہنی طور پر تیارکرنے کی ضرورت تھی تاکہ ہم اس کیفیت سے گزر سکتے جس سے ہم گزرے ہیں۔

طالبان کی طرف سے متعدد مرتبہ واپس بھگائے جانے کے باوجود 13 گھنٹوں کے بعد متعدد ہجوموں میں سے اپنے لئے راستہ بناتے ہوئے میں صرف کیمپ کے بیرونی دروازے تک پہنچ سکا اور وہاں ہزاروں مزید انتظار کر رہے تھے۔ میں اپنے بچوں اور بیوی کو مزید اس صورتحال میں نہیں رکھ سکتا تھا، میری بیوی کو کمر درد کی شکایت ہے، میں کیا کر سکتا ہوں، میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں اور میری آنکھیں مشکل سے منظر دیکھ رہی ہیں، آنسومسلسل نیچے گر رہے ہیں۔ میرے بچے اور ہزاروں دیگر بچے اور عورتیں اس سب کے مستحق نہیں ہیں۔ میری بیوی کو کئی بار مارا گیا اور میں صرف منت سماجت کر سکتا تھا کہ ملا صاحب براہ مہربانی اسے مت مارو، وہ بیمار ہے۔

وہ لمحہ گزارنا جہاں آپ کے خاندان کو کوڑے مارے جائیں اور آپ کچھ بھی نہ کر سکیں، آپ کوانتہائی کمزور انسان ہونے کا احساس مار ڈالتا ہے۔ بے بسی کا وہ لمحہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا۔ میں نے پہلے ہی اپنے وقار، اپنی اقدار اور اپنی عزت نفس پر سمجھوتہ کر کے ائر پورٹ کا رخ کیا۔

میں نے بہت سے لوگوں کو مشکل میں ڈال رکھا ہے، میں جانتا ہوں کہ آپ اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں، میں یہ نہیں بھولوں گا۔

میں اپنے بیٹوں اور اپنی بیوی کے حقوق پر پختہ یقین رکھتا ہوں اور ان کا احترام کرتا ہوں، اسی لیے میں گھر واپس لوٹا، مایوس، ٹوٹاہوا اور کئی گنا زیادہ خوفزدہ ہوں۔ ہمیں خود کو گندگی سے گھسیٹنا پڑا، سڑک پر بہنے والے سیوریج کے پانی میں بیٹھنا پڑا۔ کیا ہمیں آزادی کے لیے گندگی کے دریا سے گزرنا پڑے گا؟ مجھ نہیں پتہ۔

میری خواہش ہے کہ میں اپنے 7 سالہ بیٹے اور بیوی کو قائل کروں اور ائر پورٹ واپس جانے پر مجبور کروں لیکن وہ کہتی ہے کہ ٹھیک ہے کسی دن وہ آئیں گے اور ہمیں مار ڈالیں لیکن جو کچھ باہر جانے کی کوشش میں برداشت کر آئے ہیں، وہ یہ تضحیک و تذلیل مزید برداشت نہیں کر پائے گی۔

محمد 7 سال کا ہے لیکن جانتا ہے کہ اس کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔ وہ کہتا رہا کہ چلو گھر چلیں، میں طالبان سے کہوں گا کہ وہ میرے 2 کھلونا کاریں لے لیں اور میرے والد اور والدہ کو تکلیف نہ دیں۔ اگر کوئی میری اور میرے خاندان کی زیادہ انسانی طریقے سے مدد کر سکتا ہے تو ٹھیک ورنہ براہ کرم اپنی کوششوں اور مہربانی کو ضائع نہ کریں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts