لاہور (جدوجہد رپورٹ) امریکہ کے سابق قومی سلامتی کے مشیر جان آر بولٹن نے پاکستان کو ’ایٹمی ہتھیاروں سے لیس، طالبان دوست پاکستان‘قرار دیتے ہوئے امریکہ کو پاکستان کی امداد ختم کرنے، غیر نیٹو اتحادیوں کی فہرست سے نکالنے، انسداد دہشت گردی کی پابندیاں عائد کرنے اور بھارت کی جانب جھکاؤ تیز کرنے کی تجاویز پیش کر دی ہیں۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ میں لکھے گئے تفصیلی مضمون میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ پاکستانی شدت پسند اسلام آباد میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا دینگے اور کسی بھی وقت اقتدار پر قبضہ کرنے کی دھمکی دینگے۔
مضمون میں انہوں نے مزید لکھا کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اسلام آباد نے ایٹمی ہتھیار حاصل کئے اور شدت پسندوں کی مدد کی ہے لیکن امریکہ نے اس کو نظر انداز کیا یا نااہلی کا مظاہرہ کیا، تاہم اب معاملے کو نظر انداز کرنے کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
انہوں نے خفیہ اداروں کو بنیاد پرستی کا گڑھ قرار دیا اور لکھا کہ یہ سلسلہ فوج میں اعلیٰ ترین درجوں تک پھیل چکا ہے۔ انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو بھی بنیاد پرستی کا خوبصورت چہرہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ماضی میں سوویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران پاکستانی خفیہ ادارے نے ’افغان مجاہدین‘ کی بھرپور حمایت کی اور امریکہ نے بھی زیادہ تر امداد پاکستان کے ذریعے پہنچانے کی غلطی کی۔ پاکستان نے بھارت کو نشانہ بنانے والے دہشت گردوں کو بھی فعال کیا۔ ماسکو کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد آئی ایس آئی نے طالبان اور دیگر کی حمایت کی، 2001ء میں جب امریکی اتحاد نے طالبان کا تختہ الٹ دیا تو انہیں پاکستان کے اندر پناہ گاہیں، اسلحہ اور سامان مہیا کیا گیا، حالانکہ اسلام آباد اس عمل سے انکار کرتا رہا۔
بولٹن نے کہا اب افغانستان میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد افغان طالبان ’پاکستانی طالبان‘ اور دیگر بنیاد پرستوں کیلئے پناہ گاہوں کا وہ احسان واپس کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے پاس 150 سے زائد ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، انتہا پسند پاکستان کے ہاتھوں میں اس طرح کے ہتھیار بھارت کو ڈرامائی طو رپر کمزور کرینگے اور خطے میں کشیدگی کو بے مثال سطح تک بڑھا دینگے۔ انہوں نے خدشے کا اظہار کیا کہ دہشت گرد گروہوں کے ہاتھ اگر وار ہیڈز لگ گئے تو نائن الیون سے بھی ناقابل یقین حد تک زیادہ مہلک حملے ہو سکتے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ سقوط کابل کے بعد امریکہ پاکستان کی نیک نیتی اور لاجسٹک سپورٹ پر کم انحصار کرتا ہے۔ انہوں نے امریکہ کو مشورہ دیتے ہوئے لکھا کہ اگرپاکستان طالبان اور دیگر دہشتگردوں کی حمایت جاری رکھتا ہے تو امریکہ کو اسلام آباد کیخلاف سختی کرنا ہو گی۔
انہوں نے پاکستانی ریاستی دھڑے بندی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ پاکستان واحد حکومت ہے جو بیک وقت آتش گیر اور فائر فائٹرز پر مشتمل ہے، فائر فائٹرز کو اپنے کھیل کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں اپنے ہم وطنوں کو یقین دلانا چاہیے کہ حکومت کے حالیہ راستے نے پاکستان کو کم محفوظ بنایا ہے، زیادہ نہیں۔
انہوں نے لکھا کہ پاکستان نے طالبان کی امدادختم کی یا نہیں، اس کے واضح ثبوت نہیں ہیں، امریکہ کو پاکستان کی امداد ختم کرنی چاہیے، پاکستان کو غیر نیٹو اتحادیوں سے نکالا جانا چاہیے، انسداد دہشت گردی کی پابندیاں عائد کرتے ہوئے بھارت کی جانب جھکاؤ تیز کرنا چاہیے۔ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی پیداوار کی سہولیات پر زیادہ توجہ دی جانی چاہیے، اگر کوئی حکومت جوہری صلاحیت دہشت گردوں کو منتقل کرنے کیلئے تیار دکھائی دے تو احتیاطی اقدامات کرنا چاہئیں۔
انہوں نے یہ بھی لکھا کہ صدر بائیڈن ضروری اقدامات کیلئے زیادہ حد تک پرعزم نہیں ہیں۔ ماضی میں جو بائیڈن یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کا ہر مفاد امریکہ کا بھی مفاد ہے، تاہم بائیڈن کا یہ دعویٰ غلط تھا اور آج یہ خطرناک طور پر غلط ثابت ہو رہا ہے۔ انہوں نے لکھا کہا ”آئیے امید کرتے ہیں کہ بائیڈن نے اپنا ذہن بدل دیا ہے۔“