یاسمین افغان
سقوط کابل کو تین ہفتے گزر چکے ہیں۔ اگر کوئی باہر جانے کی ہمت کرتا ہے تو آپ کو صرف طالبان نظر آتے ہیں جن کے پاس بندوقیں ہیں اور وہ گھوم رہے ہیں۔ آپ بہت کم خواتین کو باہر دیکھ سکتے ہیں۔ مرد بھی خوفزدہ ہیں اور کسی بھی قسم کے تصادم سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ صرف ایک ماہ قبل بلدیہ کے مرد ورکروں اور کابل کے کچھ علاقوں میں خاتون ورکروں کو مرکزی شاہراہوں پر جھاڑو دیتے ہوئے اور شہر کو صاف رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ اب سڑکیں گندی ہیں اور آپ کو بلدیہ کے ورکرنظر نہیں آتے۔ اشیا خورونوش کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور ملک کے بڑے شہروں میں ادویات کی قلت ہے۔
ہاشمہ (فرضی نام) نے میرے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”ایک مہینے نے سب کچھ بدل دیا۔ ایسا لگتا ہے جیسے زندگی ہی الٹی ہو گئی ہے۔“
مزید وضاحت طلب کرنے پرانکا مزید کہنا تھا کہ ”دیکھیں میں ایک سرکاری ٹیچر ہوں، میں مشکل سے کھانے کا بندوبست کر پا رہی ہوں۔ ہمارے پاس روزمرہ کی چیزیں خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔“
کابل کی ایک اور رہائشی خاتون نے کہا کہ ”میرے شوہر گزشتہ 3 دنوں سے بینک کے سامنے کھڑے ہیں لیکن رقم نہیں نکال سکے۔ بہت زیادہ رش ہے اور پیسے تقریباً نہیں ہیں۔ مجھے بتائیں ہم کیسے زندہ رہیں گے؟“
کابل شہر کے مغرب میں ایک خاندان اپنا فرنیچر اور گھریلو سامان بیچنا چاہتا ہے۔ اس شخص نے اپنے آنسو روکنے کی بہت کوشش کرتے ہوئے بتایا کہ ”میں نے گھر بنانے اور اپنے خاندان کو اچھی زندگی دینے کے لیے برسوں محنت کی لیکن اب مجھے سب کچھ بیچنا ہے۔ میں ملک چھوڑنا چاہتا ہوں لیکن اس کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ سب کچھ بیچنا ہی واحد راستہ تھا۔“
قریب بیٹھے ایک بوڑھے شخص کا کہنا تھا کہ ”میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ہمیں دوبارہ آبائی وطن چھوڑ کر جانا پڑے گا۔ میری زندگی کا بیشتر حصہ مہاجر کی طرح گزرا،اب 20 سال بعد ایک بار پھر ہمیں گھر بار چھوڑنے کے بارے میں سوچنا ہوگا، اگر ہم نہیں چھوڑیں گے تو ہم زندہ نہیں رہیں گے۔“
ایک خاتون ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ ”ہم سے کہا گیا کہ ہم ہسپتالوں میں موجود رہیں۔ میں ایک دن کئی لیکن وہاں افراتفری کا ماحول تھا۔ ادویات کی کمی ہے اور کوئی بھی اس طرح کی سخت حکومت کے تحت کام نہیں کرنا چاہتا ہے۔ ہر کوئی چھوڑکر جاناچاہتا ہے اور میں نے کام پر نہ جانے کا فیصلہ کیاہے۔“
انکی والدہ کا کہنا تھا کہ ”جس دن وہ ہسپتال جا رہی تھی، میں نے اسے کہا کہ حجاب پہنواور میک اپ نہ کرو۔ میں خوفزدہ تھی کہ شاید وہ اسے مار ڈالیں۔ اسے پہلے ہی دو ماہ سے ادائیگی نہیں کی گئی ہے اور ہمارے پاس یقینی طور پر نقد رقم ختم ہو رہی ہے لیکن پھر بھی یہ بہتر ہے کہ وہ گھر میں رہے اور ہسپتال نہ جائے۔ اس کے وہاں ہونے کا خوف مجھے مار ڈالے گا اس لیے بہتر ہے کہ وہ گھر میں رہے۔“
شہر کے آس پاس کے لوگوں سے پوچھیں تو وہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں کے بارے میں شکایت کریں گے۔ تیل، گندم، چاول، گیس کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔
بلدیہ کے ایک سابق ملازم نے مجھے بتایا کہ ”میری تنخواہ 6000 افغانی تھی۔ میں واقعی میں ہر چیز کا انتظام کرنے سے قاصر ہوں۔ پہلے بیرون ملک موجود رشتہ دار پیسے بھیجتے تھے اور ہم انتظام کرتے تھے لیکن اب سب کچھ رک گیا ہے۔ اگر ہم ناشتہ کرتے ہیں تو معلوم نہیں ہوتا کہ دوپہر کے کھانے یا رات کے کھانے میں کیا کھائیں گے۔“
انہوں نے روتے ہوئے مزید کہا کہ ”کیا ہم اسی سب کچھ کے مستحق ہیں۔ افغانوں کو اتنے لمبے عرصے تک کیوں بھگتنا پڑرہا ہے۔ ہم روٹی یا پیراسیٹامول کا پیکٹ خریدنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔“
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ دنیا کو کچھ بتاانا چاہیں گے تو انکا کہنا تھا کہ ”میں ان سے کیا پوچھ سکتا ہوں؟ وہ پہلے ہی ہمیں چھوڑ چکے ہیں۔ ہم بھوک سے مر جائیں گے۔ میں ان سے کیا پوچھ سکتا ہوں، کچھ نہیں؟